مثبت طریقہ
قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوںیکساں نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے تم برائی کابدلہ اچھا ئی کے ذریعہ دو:وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (41:34 )۔ یہ بات قرآن میں مختلف الفاظ میں بار بار کہی گئی ہے ۔
اس کامطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کوہمیشہ مثبت ردِعمل کاثبوت دینا چاہیے۔ انھیں ہر حال میںمنفی ردِعمل سے بچنا چاہیے۔ ان کاسلوک دوسروں کے ساتھ عام حالات میں بھی بہتر ہونا چاہیے۔ او راگرکوئی شخص یاگروہ اپنی طرف سے برے سلوک کامظاہرہ کرے تب بھی خداپر ستوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ ردِعمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہوں۔ اس وقت بھی وہ بااصول انسان کا ثبوت دیں۔برائی کے جواب میں بھی وہ اپنے اچھے سلوک پر قائم رہیں۔
مذکورہ آیت کی تشریح میں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:أَمَرَ اللهُ المؤمنين بالصبر عِنْدَ الْغَضَبِ وَالْحِلْمِ عِنْدَ الْجَهْلِ وَالْعَفْوِ عِنْدَ الْإِسَاءَةِ ( تفسیر ابن کثیر،جلد7، صفحہ 165)۔ یعنی، اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب انھیں غصہ آجائے تو وہ صبرو برداشت سے کام لیں۔ ان کے ساتھ جب کوئی شخص جہالت کرے تو وہ بردباری کا طریقہ اختیار کریں۔ اور جب ان کے ساتھ کوئی شخص براسلوک کرے تو وہ اسے معاف کر دیں۔
ا س اسلامی سلوک کو ایک لفظ میں مثبت سلوک کہا جاسکتا ہے ۔یعنی جوابی معاملہ نہ کرتے ہوئے ہر ایک سے معتدل معاملہ کرنا۔ دوسروں کی روش خواہ کچھ بھی ہو، اپنے آپ کو ہمیشہ اعلیٰ انسانی سلوک پر قائم رکھنا۔
مومن وہ ہے جو برتر حقیقتوں میں جینے لگے۔ جس کے سوچنے کی سطح عام انسانوں سے اوپر اٹھ جائے۔ا یسے انسان کے اندر بے پناہ تحمل کی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔ اس کو اندرونی طور پر اتنا سکون مل جاتا ہے کہ وہ باہر کے کسی بھی ناموافق واقعہ سے بے حوصلہ نہیں ہوتا۔جہاں لوگ غصہ کرتے ہیں وہاں اسے لوگوں کے اوپر ترس آتا ہے ، جہاں لوگ بھڑک جاتے ہیں وہاں وہ سمندر کی طرح پرسکون بنارہتا ہے۔