شکر کی اہمیت
طاغوت کا لفظی مطلب ہے، حد سے تجاوز کرنے والا۔ قرآن میں یہ لفظ شیطان کے لیے آیا ہے۔ کیوں کہ اس نے اللہ رب العالمین سے بغاوت کی۔شیطان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ انسان کو شکایتی ذہن میں مبتلا کرکے اللہ سے دور کردے۔ شیطان نے آدم کی تخلیق کے وقت اللہ رب العالمین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا: وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (7:17)۔ یعنی، تو اکثر انسانوں کو اعتراف کرنے والا نہ پائے گا۔
دین کا خلاصہ اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ سے تعلق اگر انسان کو دریافت کے درجے میں حاصل ہوا ہو تو انسان کے اندر اپنے آپ میں یہ واقعہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔اس کے برعکس، جہاں اللہ کا اعتراف (شکر) نہ ہو، یقینی طور پر وہاں اللہ سے حقیقی تعلق بھی نہ ہوگا۔انسان کے اندر اللہ کے شکر کا جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔وہ تدبر و تفکر سے پیدا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا یک طرفہ عطیہ ہیں۔ اس دریافت کے بعد انسان کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اللہ رب العالمین کے اِسی اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔
تعلق باللہ فقہی یا قانونی حکم کے طور پر کسی کے اندر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ وہ دریافت کے نتیجے کے طو رپر پیدا ہوتا ہے۔اگر ایسا ہوکہ بندے کے اندر ڈسکوری کے درجے میں اللہ سے تعلق پیدا ہو تو اس کے بعد اپنے آپ اس کے نتائج ظاہر ہوں گے، اس کی سوچ میں تعلق باللہ کی جھلک دکھائی دے گی۔ تعلق باللہ کا ایک ظاہرہ شکرہے۔ اور جب اس قسم کا شکر کسی کو حاصل ہوجائے تو فطری طور پر اس کے اندر غور و فکر کا مزاج پیدا ہوتا ہے ، یعنی وہ ہمیشہ اللہ رب العالمین کے بارے میں غور وفکر کرتا رہے۔ معرفت اسی غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے دین میں تدبر یا غور و فکر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
حکمت اور شکر
قرآن کی سورہ لقمان کی ایک آیت یہ ہے: وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ (31:12)۔ یعنی، اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرے گا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرے گا اور جو ناشکری کرے گا تو اللہ بےنیاز ہے، خوبیوں والا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شکر سے پہلے حکمت ضروری ہے۔ شکر بلاشبہ سب سے بڑی عبادت ہے، لیکن صاحبِ شکر بننے سے پہلے ضروری ہے کہ آدمی صاحبِ حکمت بن چکا ہو۔ شکر اگر شکر ہے تو حکمت پری شکر (pre-shukr) کی حیثیت رکھتی ہے۔
شکر کی نسبت سے حکمت (wisdom) کی اہمیت یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے تحت زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ یہاں ناشکری کے اسباب موجود رہتے ہیں۔ کوئی انسانی معاشرہ کبھی شکایت، منفی سوچ اور ناخوشگوار تجربے سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس قسم کے حالات انسان کو نہایت آسانی سے ناشکرگزاری کی نفسیات میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس کا دماغ نفرت اور شکایت کے خیالات سے بھر جاتا ہے۔ ایسی حالت میں شکر کی نفسیات میں جینے کے لیے اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔ حکمت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ منفی حالات کے باوجود مثبت انداز میں سوچ سکے۔ شکایت کے اسباب کے باوجود وہ شکایت کا ذہن اپنے اندر نہ پیدا ہونے دے۔ دوسروں کی طرف سے اشتعال انگیزی کے باوجود وہ اپنے آپ کو مشتعل ہونے سے بچائے۔ ناانصافی کا تجربہ ہونے کے باوجود وہ ناانصافی اور حق تلفی سے اوپر اٹھ کرسوچے۔
اسی قسم کی اعلیٰ سوچ کا نام حکمت ہے۔ جو لوگ اپنے اندر اس قسم کی اعلیٰ سوچ پیدا کریں، انھیں کے لیے ایسا ممکن ہے کہ ان کے اندر حقیقی معنوں میں شکر کے جذبات پرورش پائیں۔ شکر کے لیے ایک تیار ذہن (prepared mind) درکار ہے۔ تیار ذہن کے بغیر شکر کی عبادت ممکن نہیں۔