بھولنا ایک مثبت عمل
موجودہ دنیا میں ہر انسان کو کسی نہ کسی قسم کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔نقصان کا یہ تجربہ ایک تلخ یاد بن کر اس کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ عام طورپر پیش آتا ہے۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ ایک اردو شاعر اخترانصاری (1909-1988ء)نے کہاہے:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یہ نقصان کے مسئلے کا ایک منفی حل (negative solution) ہے، اور منفی حل صرف دل کی تسکین کے لیے ہوتا ہے، وہ اصل مسئلے کا حقیقی حل نہیں ہوتا۔ اِس مسئلے کا ایک حل جارج برناڈ شا (وفات 1950ء) نے بتایا ہے۔ اُس نے کہا کہ— سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان وہ ہے جس کے پاس بھلا دینے کے لیے کچھ نہ ہو:
The most uneducated person is one who has nothing to forget in his life.
نقصان، زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ وہ مختلف صورتوں میں ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اِس مسئلے کا بے ضرر حل صرف یہ ہے کہ اُس کوبھلا دیا جائے۔ فراموشی اِس مسئلے کا سیکولر حل ہے۔ اِس کا مذہبی حل یہ ہے کہ اِس قسم کے تجربات کو خدا کے خانے میں ڈال دیا جائے۔
مزید یہ کہ اِس دنیا میں ہر چیز کا ایک مثبت پہلو ہوتا ہے۔ نقصان کے تجربے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کے سوئے ہوئے ذہن کو جگاتا ہے۔جب تلخ تجربہ ایک شاکنگ تجربہ (shocking experience)بن جائے، وہ آدمی کی سوچنے کی صلاحیت میںاضافہ کرتا ہے۔ وہ آدمی کو نئے نئے تجربات سے آشنا کرکے اس کے ذہنی اُفق (intellectual level) کو وسیع کرتا ہے۔ اس کے برعکس، بے حسی کسی انسان کے لیے نفسیاتی موت (psychological death) کی حیثیت رکھتی ہے۔