آخرت کا راستہ صبر کا راستہ ہے
’’وہ لوگ اپنے واجبات کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی ۔ وہ اللہ کی محبت میں غریب اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم کو صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری چاہتے ہیں۔ ہم کو تو اپنے رب کی طرف سے ایک سخت اور تلخ دن کا اندیشہ ہے۔ پس اللہ ان کو اس دن کی سختی سے بچالے گا اور ان کو تازگی اور خوشی عطا کرے گا اور ان کے صبر کے بدلے ان کو جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ وہ وہاں تختوں پر مسندیں لگائے ہوئے ہوں گے ۔ وہاں نہ گر می کی تکلیف ہوگی اور نہ سردی کی ۔ جنت کے درخت ان پر جھکے ہوئے سایہ کر رہے ہوں گے ۔ اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے ۔ لوگ ان کے پاس چاندی کے برتن اور شیشے کے پیالے لیے پھر رہے ہوں گے ۔ وہ شیشے بھی چاندی کے ہوں گے جن کو بھرنے والوں نے ٹھیک اندازہ کے مطابق بھرا ہوگا ۔ ان کو وہاں ایسے پیالے پلائے جائیں گے جن میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ یہ جنت کا ایک چشمہ ہو گا جس کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ ان کی خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑ تے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے رہیں گے ۔ تم ان کو دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔ وہاں تم جدھر بھی نگاہ ڈالو گے ہر طرف نعمتیں اوربڑی بادشاہی دیکھو گے۔ ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب ان کو پاکیزہ شراب پلائے گا۔ یہ ہے تمھارا بدلہ اور تمھاری کوشش اللہ کے یہاں مقبول ہوئی‘‘ (76:7-22)۔
قرآن کا یہ ارشاد بتا رہا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کی کوششیں آخرت میں سعی مشکور (76:26) کا درجہ حاصل کریں گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آخرت کی ہولنا کیوں کا اتنا شدید احساس رکھتے ہوں کہ وہ ان کے اوپر ایک قسم کا آسمانی محاسب بن کر چھا جائے ۔ ان کا حال یہ ہو جائے جیسے کہ وہ موت کی دوسری طرف جہنم کو بھڑکتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اسی کے زیر اثر سارا کام کر رہے ہیں ۔ وہ جب کوئی عہد کریں ، خواہ منت کا عہد ہو یا ایمان کا عہد یا قول و قرار کا عہد ، تو وہ اس کو اس طرح پورا کریں جیسے وہ بے پناہ یقین کے ساتھ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر انھوں نے اس کو پورا نہ کیا تو جہنم کی آگ انھیں پکڑلے گی ۔ ان کا ایمان باللہ ان پر جن باتوں کو لازم کر رہا ہے اور ان کا عہدان کو جن چیزوں کا پابند بنارہا ہے، ان کو وہ اس طرح پورا کریں جیسے وہ ایک ایسی سرحد پر کھڑے ہوئے ہیں جہاں ان کے لیے دو میں سے صرف ایک چیز کے انتخاب کاسوال ہے۔ یا قول و قرار کے تقاضوں کو پورا کرنا یا جانتے بوجھتے اپنے آپ کو جہنم کے الاؤ میں گرا دینا ۔
آخرت کے احساس ہی کے تحت ان کے اندر جو دوسری خصوصیت پیدا ہوتی ہے وہ بندوں کے ساتھ مہربانی ہے۔ وہ اپنے لیے اپنے رب سے مہربانی چاہتے ہیں، اس لیے وہ خود بھی دوسروں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں۔ وہ اپنی کمائی میں محتاجوں کا حق سمجھنے لگتے ہیں ۔ وہ ان لوگوں کا سہارا بنتے ہیں، جو حالات کے نتیجہ میں بے بس ہو گئے تھے یا بندشوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔ بندگان خدا کی خدمت کا یہ کام جو وہ کرتے ہیں ، بدلہ اور شکرانہ وصول کرنے کے لیے نہیں کرتے ۔ اس کا محرک تمام تر یہ ہوتا ہے کہ آخرت کے دن جب وہ خدا کے سامنے تمام کمزوروں سے زیادہ کمز ور حالت میں کھڑے ہوں ، اس وقت ان کا خدا ان کو بے یارو مددگار نہ چھوڑے، بلکہ ان کی مدد فرمائے۔ دنیا کی زندگی میں کسی کے ساتھ اچھا سلوک ان کے لیے دراصل ایک عملی دعا ہوتی ہے۔ وہ بھوکے کو کھلاتے ہیں ،تاکہ خدا ان کو کھلائے ۔ وہ کمزوروں کو سہارا دیتے ہیں،تا کہ خدا ان کو سہارا دے۔ وہ انسانوں کی طرف سے ڈالی ہوئی تکلیفوں کو معاف کرتے ہیں، تاکہ خدا ان کی غلطیوں کو معاف کر دے۔
ان لوگوں کو یہ نعمتیں اس لیے ملیں گی کہ انھوں نے صبر کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کل کی دنیا کے لیے جینا، دکھائی دینے والے ’’جنت اور جہنم‘‘ کو نظر انداز کر کے، نہ دکھائی دینے والے جنت و جہنم کے لیے سرگرم ہونا، ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں ہر وقت آدمی کے صبر کا امتحان ہے۔ اس راہ میں کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خودسے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کر لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے۔ کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاؤں کو روک لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گم نامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کر لینا پڑتا ہے۔ کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنے آپ کو ایک ایسے کام میں شریک کرنا پڑتا ہے، جس میں کسی قسم کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ غرض جنت کی طرف سفر کا سارا معاملہ صبر و برداشت کا معاملہ ہے۔ جو اپنے آپ کو دبانے اور کچلنے کے لیے تیار نہ ہو، وہ کبھی اس راہ کو طے نہیں کر سکتا :
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ (28:80)۔ یعنی،اور کہا ان لوگوں نے جن کو علم ملاتھا ، خرابی ہو تمھاری۔ اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لایا اور نیک عمل کیا۔ اور یہ بات انھیں کے دل میں پڑتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔
دنیا کی زندگی در اصل صبر کا امتحان ہے۔ صبر کی ایک قسم وہ ہے جو باہر کی دنیا کے خلاف ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی ماحول کی رکاوٹوں کا خاموش مقابلہ کرتے ہوئے اپنے دینی سفر کو جاری رکھتا ہے۔ مگر سب سے بڑا صبر وہ ہے جو خود اپنے خلاف پیش آتا ہے۔ زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آنے کی وجہ سے اپنے کسی بھائی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، ایسے موقع پرمنفی جذبات کی پرورش سے اپنے کو روکنا پڑتا ہے ۔ کسی کی ترقی اور مقبولیت کو دیکھ کر اس کے خلاف حسد جاگ اٹھتا ہے۔ اس وقت دشمن جیسی بے رحمانہ نظر سے اپنے دل کوٹٹولنا پڑتا ہے، تاکہ حسد اور رقابت کے بیج کو نکال پھینکا جائے ۔ کبھی آدمی ایک شخص کو اچھا سمجھتا ہے، حالاں کہ اس کی وجہ صرف اس کا نیاز مندانہ انداز ہوتا ہے اور کبھی ایک شخص کو برا سمجھتا ہے، حالاں کہ اس کی وجہ صرف اس کا تنقید و احتساب کا مزاج ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع پر اپنے آپ کو کھینچ کر ایسے مقام پر لے جانا پڑتا ہے، جہاں وہ تعریف و تنقید سے بلند ہو کر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر سکے ۔ دوسروں کے ساتھ انصاف اور خیر خواہی کے بغیر کوئی شخص دین دار نہیں بنتا اور انصاف اور خیر خواہی پر قائم ہونا صبر کے بغیر ممکن نہیں ۔