رات اور دن
قرآن کی سورہ الاسراء میں ارشاد ہوا ہے— اور انسان برائی مانگتا ہے، جس طرح اس کو بھلائی مانگنا چاہیے۔ اور انسان بڑا جلد باز ہے۔ اور ہم نے رات اور دن کو دونشانیاں بنایا۔ پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن کر دیا۔ تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ اور ہم نے ہر چیز کو خوب کھول کر بیان کیا ہے(17:11-12)۔
رات اور دن کا نظام بتاتا ہے کہ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تاریکی ہو اور اس کے بعد روشنی آئے ۔ خدائی نقشہ میں دونوں یکساں طور پر ضروری ہیں۔ جس طرح روشنی میں فائدے ہیں، اسی طرح تاریکی میں بھی فائدے ہیں ۔ دنیا میں اگر رات اور دن کا فرق نہ ہو تو آدمی اپنے اوقات کی تقسیم کس طرح کرے۔ وہ اپنے کام اور آرام کا نظام کس طرح بنائے ۔
آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ تاریکی سے گھبرائے اور صرف’’ روشنی‘‘ کا طالب بن جائے ۔ کیوں کہ خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ جو آدمی ایسا چاہتا ہو اس کو خدا کی دنیا چھوڑکر اپنے لیے دوسری دنیا تلاش کرنی پڑے گی۔
مگر یہی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ وہ ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ اس کو تاریکی کا مرحلہ پیش نہ آئے اور فوراً ہی اس کو روشنی حاصل ہو جائے۔ اسی کمزوری کا نتیجہ وہ چیز ہے جس کو عجلت کہا جاتا ہے ۔ عجلت در اصل خداوندی منصوبہ پر راضی نہ ہونے کا دوسرا نام ہے ۔ اور خداوندی منصوبہ پر راضی نہ ہونا ہی تمام انسانی بربادیوں کا اصل سبب ہے ۔
خدا چاہتا ہے کہ انسان دنیا کی فوری لذتوں پر صبر کرے، تاکہ وہ آخرت کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھ سکے۔ مگر انسان اپنی عجلت کی وجہ سے دنیا کی وقتی لذتوں پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ آگے کی طرف اپنا سفر طے نہیں کر پاتا ۔ آدمی کی عاجلہ پسندی اس کو آخرت کی نعمتوں سے محروم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
یہی دنیا کا معاملہ بھی ہے۔ دنیا میں حقیقی کامیابی صبر سے ملتی ہے، نہ کہ جلد بازی ہے ۔