صبر ایک عظیم نیکی

پروگرام کی دوقسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کی حیثیت مثبت پر وگرام کی ہو۔ اور دوسری وہ جو اتفاقی ضرورت کے تحت اختیار کی جائے۔ مثلا ًصحت بخش غذا ہمارے جسم کی مستقل ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ کبھی جسم کو دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر دواکی حیثیت صرف وقتی مطلوب کی ہے۔ غذاہمارے جسم کی مستقل ضرورت ہے اور دواہمارے جسم کی صرف اتفاقی ضرورت ۔

یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ دین میں صبر کی حیثیت مثبت تعلیم کی ہے۔ صبر ہماری مستقل دینی ضرورت ہے۔ اس کے مقابلہ میں جنگ کی حیثیت صرف وقتی ضرورت کی ہے۔ صبر ایک عظیم نیکی ہے جو ہر وقت اور ہر حال میں مطلوب ہے۔ جب کہ جنگ صرف اس وقت مطلوب ہو تی ہے جبکہ انتہائی ناگزیرحالات میں بطور دفاع اس کی ضرورت پیش آگئی ہو۔

صبر وہ اہم ترین اصول ہے جو موجودہ امتحان کی دنیا میں ہر وقت اور ہر شخص کو درکار ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص اس امتحان کے مرحلہ سے کامیابی کے ساتھ گزرنہیں سکتا۔

اس دنیا میں آدمی کو اپنے نفس کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے۔ شیطان کی ترغیبات کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے۔ دوسرے انسانوں کی طرف سے پیش آنے والی ناخوش گوار یوں پر صبر کرنا ہے۔

صبر کی ضرورت ہر لمحہ اور ہر موقع کے لیے ہے۔ نقصان کے موقع پر صبر یہ ہے کہ آپ اپنے کو مایوسی سے بچائیں۔ فائدہ کے موقع پر صبر یہ ہے کہ آپ اپنے اندر اٹھنے والے برتری کے احساس کو کچل کر ختم کر دیں۔ بیماری کے موقع پر صبر یہ ہے کہ آپ آہ وفغاں نہ کریں۔ صحت کے موقع پر صبر یہ ہے کہ آپ اپنے اندر فخر وناز کے جذبات کونہ اٹھنے دیں۔ اشتعال انگیزی کے موقع پر صبر یہ ہے کہ آپ اپنے کو مشتعل ہونے سے بچائیں۔ اور جب کوئی شخص آپ کی تعریف کرے تو اس وقت صبر یہ ہوگا کہ آپ اس سے کبر کی غذالینے کے بجائے سراپا تو اضع بن جائیں۔

صبر کوئی انسانی قانون نہیں، وہ خود فطرت کاایک قانون ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے ہر معاملہ سے ہے ، خواہ وہ معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom