تواصی بالحق ، تواصی بالصبر
27 اگست 2007ء کو میں نے رات میں ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک آواز آئی۔ اُس نے کہا کہ اٹھو۔ میں نے کہا کہ میںتو اٹھا ہوا ہوں۔ اُس نے کہا ’تواصی بالحق‘ کو جانو، ’تواصی بالحق ‘ کو جانو، ’تواصی بالحق‘ کو جانو، میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے۔ اُس نے کہا، ’تواصی بالحق‘ کوجانو، میں نے کہا کہ آپ مجھے بتائیے۔ اُس نے کچھ دیر تک مجھے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جو کہا، میں اس کو سمجھ نہیں پایا۔ اُس نے کہا کہ اِسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ تواصی بالحق کو سمجھو۔ اِس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ لفظ نہ میرے مطالعے میں تھا اور نہ مجھے اُس کا مفہوم معلوم تھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ’تواصی بالحق‘ کو کیسے سمجھوں۔ اِس میں آپ میری مدد فرمائیں (حبیب محمد، حیدر آباد)۔
’تواصی‘ کا لفظ قرآن کی سورہ نمبر 103 میںآیا ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: زمانہ گواہ ہے کہ بے شک، انسان گھاٹے میں ہے۔ سوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی:
History is a witness that man is in loss. Except those who believe and do good, and exhort on each other truth, and exhort on each other patience.
قرآن کی اِس سورہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک روایت میںآتا ہے کہ دو صحابی جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو وہ یاددہانی کے لیے آپس میں اِس سورہ کا تذکرہ کرتے تھے:
عَنْ أَبِي مَدِينَةَ الدَّارِمِيِّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: كَانَ الرَّجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا الْتَقَيَا لَمْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَقْرَأَ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ [العصر:2] ، ثُمَّ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 5124)۔
قرآن کی اِس سورہ میں مومنانہ زندگی کا کورس بتایا گیا ہے۔ یہ کورس بنیادی طورپر تین اجزا پر مشتمل ہے — ایمان اور عمل اور تواصی۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی کو شعور کی سطح پر خدا کی معرفت حاصل ہو۔ یہ معرفت ایک انسان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی نے اپنی تلاش کا جواب پالیا۔ آدمی کو اپنی فکری سرگرمیوں کے لیے صحیح فریم ورک مل گیا ۔ آدمی کو ظاہری بصارت کے ساتھ، داخلی بصیرت کی روشنی حاصل ہوگئی۔ آدمی کو اپنی ذہنی تگ و دَو کا مرکز حاصل ہوگیا۔ آدمی کے اندر اُس ہستی کا شعور پیداہوگیا، جس سے وہ سب سے زیادہ ڈرے اور جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرے۔
اِس کورس کا دوسرا جُزء عملِ صالح ہے۔ عملِ صالح سے مراد وہ عمل ہے جو عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ عملِ صالح کی اِس فہرست میں ذکر و دعا، عبادات، اخلاق اور معاملات، وغیرہ سب شامل ہیں۔ ہر وہ کام جس میں انسان کا جسمانی وجود شامل ہوتا ہے، وہ سب اُس کا عمل ہے اور یہ مطلوب ہے کہ اِن تمام اعمال کو صالحیت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی عمل کی دو قسمیں ہیں:ایک، خود رُخی(self-oriented) عمل اور دوسرا، خدا رُخی (God-oriented)عمل۔ اسلامی شریعت میں خود رخی عمل کا دوسرا نام غیر صالح عمل ہے اور خدا رخی عمل کا دوسرا نام صالح عمل۔
اِس کورس کا تیسرا جُزو تواصی ہے۔ تواصی میں مشارکت پائی جاتی ہے۔اِس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو نصیحت کرنا۔ دو آدمی ایک دوسرے کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت، سنجیدہ موضوعات پر ایک دوسرے کے ساتھ جو گفتگو کریں، اُس کانام تواصی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ تواصی نام ہے باہمی تبادلۂ خیال(mutual discussion) کا۔ دینی موضوعات پر باہمی ڈسکشن کسی مومن کی زندگی کا اُسی طرح ایک ناگزیر حصہ ہے، جس طرح ایمان اور عملِ صالح۔
یہ باہمی تبادلۂ خیال، یا انٹلکچول ایکسچینج (intellectual exchange) ذہنی ترقی کے لیے بےحد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹلکچول ایکسچینج کے بغیر ذہنی ترقی بالکل ممکن نہیں۔ جب دو آدمی سنجیدگی کے ساتھ ایک موضوع پر تبادلۂ خیال کریں تو دو آدمیوں کی گفتگو کے دوران ایک تیسرا تصور ایمرج (emerge)کرتا ہے، جس طرح دو پتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز نکلتی ہے، یعنی چنگاری۔ اِسی طرح باہمی تبادلۂ خیال دونوں کے لیے ذہنی ارتقاکا ذریعہ بنتا ہے۔
اہلِ ایمان کے لیے تواصی کے اِس عمل کا موضوع صرف دو ہے، اور وہ ہے— حق اور صبر۔ حق میں تمام مثبت موضوعات شامل ہیں۔ مثلاً قرآن اورحدیث کے گہرے معانی کو سمجھنے کے لیے باہمی تبادلۂ خیال کرنا۔ یہ مقصد صرف قرآن کی تلاوت سے حاصل نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث کو چرچا اور تبادلۂ خیال کا موضوع بنادیا جائے۔ یہ مقصد صرف سنجیدہ ڈسکشن کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔مثلاً ہر گھر میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ کبھی کسی نقصان کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی کسی فائدے کا تجربہ۔ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ گھروں میںنقصان کے واقعے کو لے کر لوگ منفی انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ اِسی طرح فائدے کے واقعے کو لے کر خوشی اور فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ایسے موقع پر قرآن کی آیت: لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ (57:23) کو چرچا کا موضوع بنایا جائے۔ یعنی، تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو تم سے کھویا گیا۔ اور نہ اس چیز پر فخر کرو جو اس نے تم کو دیا۔
دوسرے الفاظ میں، اگرنقصان کا تجربہ ہو تو اُس پر اِس انداز سے آپس میں بات کی جائے کہ مایوسی کا احساس لوگوں کے اندر سے ختم ہوجائے ۔ اور اگر فائدے کا تجربہ ہو، تب بھی اُس پر اِس انداز سے باہم گفتگو کی جائے کہ لوگوں کے اندر فخر کے بجائے شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
اِسی طرح نئے واقعات بھی اِس تواصی کا موضوع بن سکتے ہیں۔مثلاً حال میں چھپی ہوئی ایک کتاب کے اندر یہ انکشاف کیا گیاہے کہ مدر ٹریسا (وفات1997ء) جو تقریباً ستّر سال تک خدا کے نام پر سوشل سروس کرتی رہیں، مگر اُنھیں اپنے اِس عمل کے دوران کبھی سچائی کا تجربہ نہیںہوا۔ وہ مسلسل طورپر مذہبی اور روحانی اعتبار سے سوہانِ روح (agony) میںمبتلا رہیں (ٹائم میگزین، 3 ستمبر 2007ء)۔ اب اِس خبر پر آپ باہم ہمدردانہ تبادلۂ خیال کریں کہ مدر ٹریسا کے ساتھ یہ ٹریجڈی کیوں پیش آئی۔
تواصی کے عمل کا دوسرا موضوع صبر ہے۔ صبر کوئی انفعالی چیز نہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کا مثبت عمل ہے۔ اِس دنیا میں آدمی کو مسلسل طور پر ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں تو اصی بالصبر یہ ہے کہ دو آدمی یا چند آدمی اِس پر گفتگو کریں کہ ناموافق حالات کے باوجود، کس طرح ایمان اور عملِ صالح کی زندگی کی منصوبہ بندی کی جائے۔
میرے تجربے کے مطابق، اِس تواصی کا پہلا میدان آدمی کا اپنا خاندان ہے، خاندان، عورت اور مرد کے اُس مجموعے کا نام ہے جن کے درمیان خونی رشتہ(blood relationship) ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں سماجی تعلقات کے درمیان سب سے زیادہ طاقت ور رشتہ خونی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ خونی رشتہ انٹلکچول ایکسچینج کے لیے بے حد مفید ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی تبادلۂ خیال کے لیے دونوں فریق کے درمیان باہمی موانست بے حد ضروری ہے۔ اور خاندانی افراد کے درمیان یہ موانست کامل درجے میں پائی جاتی ہے۔
صحت مند تبادلۂ خیال کے لیے ایک لازمی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ ساری گفتگو’حق‘ اور ’صبر‘ کے موضوع پر کی جائے۔ دیگر موضوعات سے مکمل طورپر پرہیز کیا جائے۔ دیگر موضوعات مثلاً نفرت اور شکایت کا چرچا، دنیوی اہمیت کی چیزیں اورسطحی موضوعات پر تفریحی باتیں، وغیرہ۔ یہ سب اِس معاملے میں ڈسٹریکشن ہیں۔ اور ڈسٹریکشن اتنی زیادہ تباہ کُن چیز ہے جس کا تحمل ایک حق پرست آدمی کبھی نہیں کرسکتا۔
قرآن میں اہلِ بیتِ رسول کے بارے میں ایک آیت آئی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(33:33)۔یعنی، اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے آلودگی کو دور کرے اور تم کو پوری طرح پاک کردے۔اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول کا ذکر ہے، مگر یہاں مخصوص ریفرنس (particular reference) میں ایک جنرل تعلیم دی گئی ہے۔ اِس اعتبار سے یہاں ہر صاحبِ ایمان کے اہلِ بیت مراد ہیں۔ اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہے— رِجس کو دور کرنا اور تطہیر کرنا۔ بظاہر اِن دونوں عمل کو خدا کی طرف منسوب کیاگیا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبارسے یہ وہی چیز ہے جس کو تواصی کہاگیا ہے۔ تواصی کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت کے لیے کیا۔ اِسی طرح ہر اہلِ ایمان عورت اور مرد کو اپنے اہلِ بیت پر تواصی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
اہلِ بیت کی تواصی سے مراد سادہ طورپر خاندان کی اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مومن خاندان کے اندر یہ ماحول ہونا چاہیے کہ افرادِ خاندان ایک دوسرے کے ساتھ تواصی میں شریک ہوجائیں۔ہر گھر میں ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کے درمیان چرچا یا تبادلۂ خیال صرف دو موضوعات پر ہو، یعنی حق کے موضوع پر اور صبرکے موضوع پر۔ ہر خاندان میںیہ ماحول ہو کہ دُنیوی چیزیں ضرورت کے خانے میں ڈال دی جائیں، دُنیوی چیزیں اہلِ خاندان کے درمیان چرچا کا موضوع نہ ہوں، بلکہ چرچا کا موضوع صرف وہ چیزیں ہوں جن کا تعلق دین اور آخرت سے ہو۔
مزید غور کیجیے تومعلوم ہوگا کہ ہر انسان کے لیے خدا نے اُس کے اہلِ بیت کی صورت میں ایک فطری گروپ فراہم کردیا ہے، جس کے ذریعے وہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی عبادت کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے بعد ہر مومن کی ایک اور ضرورت ہے اور وہ ہے اس کا ذہنی ارتقا۔ اِس ذہنی ارتقا میں مطالعہ اور مشاہدہ کے علاوہ انٹلکچول ایکسچینج بہت زیادہ اہم ہے۔
کسی خاندان کے افراد کا سب سے بڑا رول یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partners) بن جائیں، جس طرح کسی اکیڈمی میں کچھ اسکالر ہوں تو وہاں وہ شاپنگ اور آؤٹنگ کی بات نہیں کرتے، بلکہ وہاں وہ سنجیدہ علمی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔یہی معاملہ ہر مومن خاندان کا ہونا چاہیے۔ مومن خاندان کے ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے جب بھی بات کریں تو وہ صرف علمی اور دینی موضوعات پر بات کریں۔ دوسرے موضوعات کو قصداً وہ اپنے لیے چرچا کا موضوع نہ بنائیں۔ ہر مومن فیملی کو چاہیے کہ وہ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے یہ کوشش کرے کہ کسی فردِ خاندان کے اندر منفی جذبات پرورش نہ پائیں۔ ہر ایک مثبت ذہن کے ساتھ جینے والا انسان بن جائے۔
بچوں کی اصلاح کا بھی یہی سب سے زیادہ کارگر ذریعہ ہے۔ عام طورپر ماں باپ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی خوشی پوری کرتے رہیں، مگر یہ بچوں کے ساتھ محبت نہیں بلکہ وہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ اِس معاملے میں ایک حدیثِ رسول، والدین کے لیے رہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہے:
مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ (الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ یعنی، کسی والد کی طرف سے اُس کی اولاد کے لیے سب سے اچھا عطیہ یہ ہے کہ وہ اُس کو اچھے اخلاق اور آدابِ حیات کی تعلیم دے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کا یہ مقصد اِس طرح حاصل نہیں ہوسکتا کہ والدین اپنے بچوں کو یہ کرو اور وہ نہ کرو (do’s and don’ts) کی زبان میں کچھ ہدایات دیتے رہیں، بلکہ یہ مقصد صرف اِس طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ پورے گھر کے اندر تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا ماحول قائم ہوجائے۔ گھر کے اندر چرچا کا موضوع صرف ایک ہو اور وہ حق اور صبر ہو۔