منفی تأثر، مثبت تأثر
ایک صاحب نے ایم بی اے (ماسٹر آف بزنس ایڈ منسٹریشن) کاکورس کیا۔ اِس کے بعد اُن کو دہلی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںاچھی سروس مل گئی۔ انھوں نے اِس سروس کی بنیاد پر ہاؤس لون لے کر اپنا ایک گھر بنا لیا۔ اِسی طرح انھوں نے کار لون لے کر اپنے لیے ایک کار حاصل کرلی۔بظاہر اُن کے معاملات درست تھے۔ ایک عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملے۔ وہ اُس وقت غصے میں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ کمپنی والوں نے میرے ساتھ ایک بے انصافی کی ہے۔ انھوں نے میرے ایک جونیئر کا پروموشن کردیا۔ میں اس کے مقابلے میں سینئر تھا، مگر میرا پروموشن نہیں ہوا۔ میں اِس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا کہ اِسی کمپنی کی ملازمت کی وجہ سے شہر میں آپ کا گھر ہوگیا اور آپ کو کار مل گئی۔ اِس کا آپ نے کبھی اعتراف نہیں کیا، اور آپ کا پروموشن نہیں ہوا تو آپ اِس پر غصہ ہورہے ہیں۔
یہی عام طورپر تمام عورتوں اور مردوں کا مزاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے موافق باتوں کا چرچا نہیں کرتے، لیکن اُن کے مخالف کوئی بات ہوجائے، تو وہ اس کا چرچا خوب کرتے ہیں۔ یہ مزاج انسانی شخصیت کے لیے قاتل ہے۔ ہر انسان کو بہت زیادہ اِس مزاج سے بچنا چاہیے۔
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر سو میںننانوے مثبت باتیں ہوں، تووہ اس کی شخصیت کا حصہ نہیں بنیں گی، لیکن اگر ایک منفی بات ہو تووہی اس کی شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔ پانی کے گلاس میں اگر آپ پتھر کا ایک ٹکڑا ڈالیں تو وہ صرف ایک ٹکڑا بن کر پانی میں رہے گا، لیکن اگر آپ اس کے اندر رنگ ڈال دیں تو رنگ پورے پانی میں پھیل جائے گا۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب کسی واقعے سے منفی تاثر لے گاتو وہ تاثر اس کی پوری شخصیت کا حصہ بن جائے گا، لیکن اُس کے ساتھ کوئی مثبت واقعہ پیش آئے تو وہ اس کی شخصیت کا صرف ایک محدود جز بن کر پڑا رہے گا۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ منفی تاثر فوراً انسان کے فعّال حافظے کا جز بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مثبت تاثر بہت جلد فراموشی کے خانے میںچلا جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب کوئی منفی تاثرپیش آئے تو فوراً وہ اس کو بھلا دے، ورنہ اس کو منفی شخصیت کی صورت میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔