مبنی بر نظام یا مبنی بر نفرت
اسلام کے لیے نظام (system) کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح بیسویں صدی عیسوی میں کچھ مسلم رہنماؤں نے ایجاد کی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات1762ء) نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ’’فکُّ کلِّ نظام‘‘ کالفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن اس جملے میں یقینی طورپر نظام سے مراد اسلامی نظام نہیں ہے۔ اِس میں لفظ ’نظام‘ کو اس کے عمومی معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی تصور کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
گفتند جہانِ ما، آیا بتومی سازد گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
اسلام کی تعبیر نظام سے کرنا کوئی سادہ بات نہیں، یہ دراصل ایک سنگین انحراف کے ہم معنی ہے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا اتباع جس طرح عقیدہ اور عبادت اور اخلاق کے معاملے میں کرنا ہے، اسی طرح اس کا اتباع قانون اور سیاست کے معاملے میں بھی لازماً کرنا ہے۔ مگر یہ بریکٹ کوئی سادہ بریکٹ نہیں۔ کیوں کہ عقیدہ اور عبادت اور اخلاق کے معاملے میں اسلام کا اتباع ایک شخص صرف اپنے ذاتی فیصلے کے تحت کرسکتا ہے۔ لیکن قانون اور سیاسی اقتدار کے معاملے میں اسلام کا اتباع اول دن ہی سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ کیوں کہ سیاسی اقتدار ہمیشہ کسی کے ہاتھ میں ہوتاہے، اور اسلام کو ’’کامل نظام‘‘ کے طور پر نافذ کرنے والوں کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ سیاسی حاکموں کو اقتدار سے بے دخل کریں اور ان کی جگہ مسلم اقتدار کو قائم کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی نظامی تعبیر، اسلام کی متشددانہ تعبیر کا خوب صورت نام ہے۔ اِس تعبیر کے لازمی نتیجے کے طورپر یہ ہوتا ہے کہ مفروضہ باطل پسندوں کے خلاف نفرت کا مزاج بنتا ہے، اُن کے خلاف تشدد کا کلچر وجود میں آتا ہے، دوسروں کے خلاف جارحیت کی فضا قائم ہوتی ہے اور آخر کار یہ معاملہ خود کش بم باری (suicide bombing) تک پہنچ جاتا ہے۔ اسلام کی نظامی تعبیر میں انتہا پسندی، نفرت، ٹکراؤاور تشدد اِس طرح شامل ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔