ایک کے بعد دوسرا
پرل ہاربر امریکہ کی ایک بندرگاہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم (1939-1945ء)کے زمانہ میں یہاں امریکی بحریہ کا زبر دست فوجی اڈہ قائم تھا۔ 7 دسمبر1941ء کو جاپان نے اچانک پرل ہاربر پر بمباری کر کے اس کو تباہ کر دیا۔ امریکہ کا جرم یہ تھا کہ وہ جاپان دشمن طاقتوں کے ہاتھ فوجی ہتھیار فروخت کرتا ہے ۔ مگر جاپان کے اس جنگی اقدام نے مسئلہ کو اور زیادہ بڑھا دیا ۔ اب امریکہ براہ راست جنگ میں شریک ہو گیا۔ اس کے بعد امریکہ ، برطانیہ اور روس نے مل کر وہ فوجی محاذ قائم کیا جو تاریخ میں اتحادی طاقتوں (Allied Powers) کے نام سے مشہور ہے۔ اس فوجی اتحاد کا سب سے زیادہ نقصان جاپانیوں کے حصہ میں آیا۔ امریکہ نے اگست 1945 ءمیں جاپان کے دو صنعتی شہروں (ہیر وشیما اور ناگا ساکی) پر تاریخ کے پہلے ایٹم بم گرائے۔ جاپان کے دونوں صنعتی مراکز بالکل بر باد ہو گئے اور اسی کے ساتھ جاپان کی فوجی طاقت بھی۔
پرل ہاربر پر بمباری کرنا بلا شبہ جاپان کی عظیم الشان فوجی غلطی تھی ۔ اس اقدام نے غیر ضروری طور پر امریکہ کو جاپان کا دشمن بنا کر براہ راست اس کے خلاف کھڑا کر دیا ۔ مگر جاپان ایک زندہ قوم تھی۔ اس نے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہیں کی۔ اس نے نئے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کر لیا ۔ جاپان کی اس عقل مندی نے اس کے لیے ایک نیا عظیم تر امکان کھول دیا۔ جنگی میدان میں اقدام کے مواقع نہ پا کر اس نے تعلیم اور صنعت کے میدان میں اپنی جد و جہد شروع کردی۔ سیاسی اور فوجی اعتبار سے اس نے امریکہ کی بالادستی تسلیم کرلی اور دوسرے پر امن میدانوں میں اپنے آپ کو موڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 30 سال میں جاپان نے پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور حیثیت حاصل کر لی۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک مبصر نے لکھا ہے :
That is a queer culmination of Pearl Harbour, but history has many contrived corridors and perhaps Pearl Harbour was one of them.
یہ پرل ہاربر کے واقعہ کا بڑا عجیب اختتام ہے۔ مگر تاریخ میں اس طرح سے راستہ نکال لینے کی بہت سی مثالیں ہیں اور شاید پرل ہار بر ان میں سے ایک ہے (ہندوستان ٹائمس، 30 نومبر 1981ء)۔
ہر نا کامی کے بعد ایک نئی کامیابی کا امکان آدمی کے لیے موجود رہتا ہے، بشرطیکہ وہ نہ جھوٹی اکڑدکھائے اور نہ بے فائدہ ماتم میں اپنا وقت ضائع کرے۔ بلکہ حالات کے مطابق از سرنو اپنی جدوجہد شروع کر دے۔