شخصیت سازی کا عمل
روسو(Jean Jacques Rousseau)فرانس کا مشہور جمہوری مفکر ہے۔ وہ 1712ء میں پیدا ہوا اور1778ء میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ شخصی بادشاہت کے مقابلے میں عوامی حکمرانی کا علم بردار تھا۔ وہ اپنی مشہور کتاب معاہدۂ عمرانی (Social Contract) کا آغاز اس جملے سے کرتا ہے— انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں بندھا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in Chain.
مگر انسان کا ایک اور مسئلہ ہے جو شاید اس سے بھی زیادہ سنگین ہے، اور وہ کنڈیشننگ ہے۔ ہر عورت اور مرد کسی ماحول میں رہتے ہیں۔ ماحول کی نسبت سے ہر ایک کے ذہن کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے جو اس کو صحیح طرزِ فکر سے محروم کردیتی ہے۔ آدمی اس قابل نہیں رہتا کہ وہ فطری انداز میں سوچ سکے۔ اِس مسئلے کو دیکھتے ہوئے روسو کے جملے کو زیادہ بہتر طورپر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ— انسان فطرت پر پیدا ہوا تھا، مگر وہ ہر جگہ کنڈیشنڈ دکھائی دیتا ہے:
Man was created on divine nature, but I see him psychologically conditioned.
ایک بچہ جب ماں کے پیٹ سے پیداہوتا ہے، اس وقت اس کو دیکھیے تو وہ معصومیت کا پیکر دکھائی دے گا۔ ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ فرشتے نے انسان کی صورت اختیار کرلی ہے۔ پیدائش کے وقت انسان اپنے ذہن کے اعتبار سے خالص ذہن کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی سوچ عین وہی فطری سوچ ہوتی ہے جو بطور واقعہ ہونا چاہیے۔ مگر انسان ایک سماجی حیوان (social animal) ہے۔ اس کو اپنی ساری زندگی دوسروں کے بنائے ہوئے سماج کے اندر گزارنا ہوتا ہے۔اس بنا پر اس کا ذہن ہر آن خارجی تأثر قبول کرتا رہتا ہے۔ جس کو کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ یہ تاثر پذیری بڑھتی رہتی ہے، یہاں تک کہ انسان مکمل طورپر کنڈیشننگ کا کیس بن جاتا ہے۔
سن شعور کو پہنچنے کے بعد ہر عورت اور مرد کی یہ لازمی ذمّے داری ہے کہ وہ اس کنڈیشننگ کو سمجھے اور اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرکے دوبارہ اپنے آپ کو حالتِ فطری کی طرف واپس لے جائے، وہ اپنے آپ کو انسانِ مصنوعی کے بجائے انسانِ فطری بنائے۔
موجودہ زمانے میں علمِ نفسیات میںایک نظریہ بہت عام ہوگیا ہے جس کو بہیویرازم (behaviourism) کہاجاتا ہے۔ نفسیات کے اس مدرسۂ فکر میں یہ مان لیا گیا ہے کہ یہ کنڈیشننگ ہی انسان کی مستقل حالت ہے، انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے کچھ نہیں، یہ دراصل ماحول کی کنڈیشننگ ہے جو انسان کی شخصیت سازی کرتی ہے۔ اس نظریے کے حاملین کہتے ہیں کہ انسان نیچر (nature) سے نہیں بنتا۔ بلکہ وہ نرچر(nurture) سے بنتا ہے۔ یعنی ماحول کی پرورش سے۔ اس نفسیاتی مدرسۂ فکر کے لوگ کہتے ہیں کہ — انسان جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں کے حالات اس کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں:
He was nurtured when he was born. (Wotton)
انسانی شخصیت کی زیادہ گہری تحقیق اس نظریے کو ردّ کررہی ہے۔زیادہ گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک مکمل شخصیت ہوتا ہے۔ جنیٹک کوڈ کی حالیہ دریافت مذکورہ نظریے کی مکمل تردید ہے۔ اس دریافت کے ذریعے یہ ثابت ہوا ہے کہ جنیٹک کوڈ کے اندر پیدائشی طورپر ہر انسان کی مکمل شخصیت موجود ہوتی ہے۔ بعد کے دور میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ اسی جنیٹک کوڈ کی صرف اَن فولڈنگ (unfolding)ہے۔
اِس نقطۂ نظر کے مطابق، زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ماحول کی کنڈیشننگ اصل انسان کے اوپر ایک مصنوعی پردے کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا انسان کی شخصیت پیاز کی مانند ہے۔ پیاز کے اندر مٹر کی مانند ایک مغز ہوتا ہے۔ اس داخلی مغز کے اوپر خارجی پردے کے مانند بہت سے چھلکے ہوتے ہیں۔ اگر ان چھلکوں کو ہٹایا جائے تو پیاز کا اندرونی مغز کھل کر سامنے آجائے گا۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کی شخصیت کے اوپر ماحول کے اثر سے مصنوعی پردے پڑ جاتے ہیں۔ ان پردوں کو ہٹا دیا جائے تو انسان کی اصل شخصیت کھل کر سامنے آجائے گی۔
انسانی شخصیت کے انھیں خارجی پردوں کو ہٹانے کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔ جو آدمی سچائی کا طالب ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے مصنوعی پَردوں کو ختم کرے تاکہ اس کی اصل شخصیت سامنے آسکے۔
مذہب میں یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ انسان خدا کی خاص تخلیق ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی خدائی شخصیت (divine personality) پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے داخلی وجود کے اعتبار سے ایک صحیح اور کامل شخصیت ہوتا ہے۔ ابدی کامیابی کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنی اس فطری شخصیت کی حفاظت کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس حالتِ فطری پر قائم کرے جس پر اس کے پیدا کرنے والے نے اس کو پیدا کیا ہے۔ اسی خود تعمیری جدوجہد کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان جب ایک ماحول میں پرورش پاتا ہے توہر دن اس کے ساتھ مختلف منفی تجربے پیش آتے ہیں۔ یہ تجربے اس کی اصل شخصیت پر غیر مطلوب پردے ڈالتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص اس کے مقابلے میں زیادہ ترقی کر گیا۔ یہ تجربہ اس کے اندر حسد کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اور اس کی شخصیت کے اندر حسد کا ایک عنصر شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اس کے ساتھ ناپسندیدہ سلوک کرتا ہے۔ یہ تجربہ اس کی شخصیت میں نفرت کا ایک عنصر شامل کردیتا ہے۔ ایک مشاہدہ اس کے سامنے آتا ہے اس کو دیکھ کر اس کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو لالچ کہاجاتا ہے۔ یہ تجربہ اس کی شخصیت میں لالچ کا ایک عنصر داخل کردیتا ہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اس کے ساتھ ظلم کا معاملہ کرتا ہے۔ یہ تجربہ اس کے اندرتشدد کا جذبہ جگاتا ہے، اوراس کی شخصیت میں تشدد کا عنصر شامل ہوجاتا ہے۔
اس طرح ماحول کے اندر آدمی کو مختلف قسم کے تجربات سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے، اور ہر تجربہ ایک منفی عنصر بن کر اس کی شخصیت کی تشکیل کرتا رہتا ہے۔ یہاںتک کہ انسان کی اصل شخصیت پردوں میں ڈھک جاتی ہے۔ انسانِ فطری بدل کر انسانِ مصنوعی بن جاتا ہے۔
ڈی کنڈیشننگ اسی مصنوعی صورتِ حال کی تصحیح ہے۔ یہ ڈی کنڈیشننگ ہر انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت بنی رہے گی، وہ کبھی کامل شخصیت کا درجہ نہ پاسکے گی۔اس ڈی کنڈیشننگ کا بنیادی ذریعہ احتساب خویش (introspection) ہے۔ ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ خود اپنا نگراں بن جائے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اندر سے ہر منفی آئٹم کو نکالے اور اس کو فکری تصحیح کے عمل سے گزار کر مثبت آئٹم بنائے۔ اور پھر اسی مثبت آئٹم کو اپنی شخصیت میں واپس داخل کرے۔ جس طرح مویشی جگالی (rumination) کرکے اپنے اندر سے غیر ہضم شدہ غذا کو نکالتے ہیںاور پھر اس کو قابل ہضم بنا کر اپنے پیٹ میں دوبارہ داخل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کریں۔
نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے دوبڑے حصے ہیں— شعور اور لاشعور۔ انسان کے ساتھ جب کوئی ناخوشگوار تجربہ گزرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس کے ذہن کے شعوری خانے میں ایک منفی آئٹم کے طور پر داخل ہوتا ہے۔ یہ منفی آئٹم چند دن تک زندہ شعور کے خانے میں رہتا ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ اس کے لاشعور کے خانے میں چلا جاتا ہے۔ اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن کا حصہ بن جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر آدمی پہلے ہی دن یا چند دن کے اندر ہر منفی آئٹم کو مثبت آئٹم میں تبدیل کرے۔ تا کہ یہ آئٹم جب زندہ شعور سے گذر کر اس کے لاشعور میں یا حافظے کے اسٹور میں پہنچے تو وہ ایک مثبت آئٹم کے طورپر وہاں محفوظ ہو۔
یہی وہ عمل ہے جو انسانی شخصیت کی تعمیر میں اصل فیصلہ کن عامل(factor) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی عمل کے دوران یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کوئی انسان منفی شخصیت کا حامل ہوگا یا مثبت شخصیت کا حامل۔جو آدمی اپنے روز مرّہ کے تجربات پر تصحیح کا عمل کرکے اس کو مثبت آئٹم میں ڈھالتا رہے،اس کے لاشعور یا حافظے کے اسٹور میں تمام آئٹم مثبت آئٹم کے طورپر جمع ہوں گے۔ ایسے انسان کی شخصیت ایک مثبت شخصیت ہوگی۔ اس کے برعکس، جو انسان تجربے کے پہلے ہی مرحلے میں تصحیح کا یہ عمل جاری نہ کرسکے اس کو پیش آنے والے تمام منفی آئٹم اس کے لاشعور کے خانے میں صرف منفی آئٹم کے طورپر جگہ پائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی پوری شخصیت ایک منفی شخصیت بن جائے گی۔
انسان جو بھی عمل کرتا ہے، خواہ وہ اس کی سوچ ہو یا وہ اس کا قول ہو یا وہ اس کا عمل، سب کچھ اس کے لاشعور کے تحت ہوتا ہے۔ کوئی انسان اپنے شعور کے کم اور اپنے لاشعور کے زیادہ تابع ہوتا ہے۔ جس انسان کا لاشعور منفی آئٹم کا ذخیرہ بن جائے، اس کے تمام اقوال و اعمال منفی نوعیت کے ہوں گے۔ اس کے برعکس، جس انسان کا لاشعور خود تعمیری کے نتیجے میں مثبت آئٹم کا ذخیرہ بنا ہوا ہو، اس کے تمام اقوال و اعمال صحت مند اور مثبت انداز کے حامل ہوں گے۔
حق کی تلاش یا حق کی یافت دونوں ہی مثبت شخصیت کا فعل ہیں۔ یہ دراصل مثبت شخصیت ہے جس کے اندر تلاشِ حق کا اعلیٰ جذبہ جاگتا ہے۔ اور یہ مثبت شخصیت ہی ہے جو اپنی سلامتِ فکر کی بنا پر آخر کار حق کی یافت کے مرحلے تک پہنچتی ہے۔