صبر کی نصیحت
قرآن کی سورہ العصر میں اہلِ ایمان کی صفت بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (103:3)۔ یعنی،وہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرنے والے ہوتے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت میں حق سے مراد اہلِ ایمان کی داخلی صفت ہے اور صبر سے مراد اہلِ ایمان کی وہ صفت ہے جس کا تعلق خارجی حالات سے ہے۔ ایمان کے معاملے میں اصل مطلوب چیز حق کا اتباع ہے۔ مومن وہ ہے جو حق کو شعوری طورپر دریافت کرے اور پھر عملاً اُس پر قائم ہوجائے۔
مگر یہ فیصلہ کوئی سادہ فیصلہ نہیں۔ جب ایک شخص اتباعِ حق کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فیصلہ ایک ایسی دنیا میں ہوتا ہے جہاں طرح طرح کے مسائل ہیں۔ کبھی کوئی خارجی چیز اس کی خواہش (desire) یا اس کی انا (ego) کو بھڑکاتی ہے اور اس کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی خواہش سے متاثر ہو کر حق کے راستے سے ہٹ جائے۔ اِسی طرح کبھی خارجی مشکلات سے اس کے ارادے میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ثابت قدمی پر آمادہ کیا جائے۔
یہی وہ مواقع ہیں جوتواصی کی ضرورت پیدا کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر اہلِ ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سچے مددگار بن جائیں۔ وہ خیر خواہانہ نصیحت کے ذریعے ایک دوسرے کو سنبھالیں۔ ایسے مواقع پر وہ ایک دوسرے کو درست مشورہ دے کر یہ کوشش کریں کہ اُن کا ساتھی حق سے منحرف نہ ہونے پائے، وہ صبر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بدستور حق پر قائم رہے۔ تواصی کا مطلب باہمی نصیحت یا باہمی مشورہ ہے۔
مشورہ کی کچھ لازمی شرطیںہیں— ایک یہ کہ وہ مبنی بر خیر خواہی مشورہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ عملی طورپر ایک ممکن العمل مشورہ ہو۔ حقیقی تواصی وہی ہے جس میں یہ شرطیں پائی جائیں۔ تواصی بالحق سے مراد نظری معاملے میں تواصی ہے اور تواصی بالصبر سے مراد عملی معاملے میں تواصی۔