تجربہ سے سبق سیکھیے
تجربہ (experience) ہمیشہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں، جو اپنے تجربے کو سبق بنا سکیں۔ تجربہ ہر انسان کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ ہوتا ہے۔ تجربہ انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ تجربہ سے مثبت فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اس لیے کہ وہ تجربہ کو شکایت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ صرف دوسرے کی غلطی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسے کسی واقعے میں دونوں فریق کا حصہ ہوتا ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کو یک طرفہ طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کو حذف کرکے سارے معاملے کو دوسرے کی غلطی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی تقریباً ننانوے فیصد مثالوں (cases) میں پیش آتا ہے۔
مگر اس طرح یک طرفہ رائے قائم کرنا،قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحابِ رسول جیسے سارے لوگ ہوں، تب بھی ناخوش گوار واقعات میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ شامل رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوۂ احد کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ میں اصحاب رسول کو ابتداءاً کامیابی ہوئی، لیکن بعد کو خود اپنی ایک غلطی سے سخت نقصان اٹھانا پڑا (آل عمران،3:152-153) ۔
تجربے کو سبق بنائیے، تجربے کو شکایت نہ بنائیے۔ تجربے کو سبق بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے ایک منفی واقعہ کو مثبت واقعہ میں تبدیل کردیا، آدمی نے اپنے نقصان کو دوبارہ اپنے لیے فائدہ بنالیا۔ اس کے برعکس، جو لوگ تجربے کو شکایت اور نفرت کا ذریعہ بنا لیں، انھوں نے گویا نقصان کے بعد ملنے والے فائدہ سے بھی اپنے کو محروم کرلیا۔ انھوں نے پہلے موقع کو بھی کھویا، اور دوسرے موقع کو بھی کھو دیا۔