صبر کاپھل
نسیم علی خاں صاحب (پیدائش 1959ء)گیارہ سال سے بمبئی میں رہتے ہیں ۔ 23 اگست 1990ء کی ملاقات میں انھوں نے ایک واقعہ بتایا جو بہت سبق آموز ہے ۔
بمبئی میں سیوری کر اس روڈ کے علاقہ میں’’ مقدس مسجد‘‘ کے نام سے ایک مسجد ہے ۔ یہاں پچھلے25سال سے تبلیغی جماعت کا کام ہو رہا تھا۔ تین سال پہلے کی بات ہے، ایک روز سنی (بریلوی) مسلمانوں کی ایک جماعت اچانک مسجد میں آگئی۔ یہ جمعہ کا دن تھا ، وہ کھڑے ہو کر سلام پڑھنے لگے ۔ دوسرے مسلمانوں نے انھیں روکا۔ اس پر بات بڑھی ، اور پولس بلانی پڑی ۔
بریلوی حضرات کے مطالبہ پر آخر کار یہ طے ہوا کہ وہ سلام نہیں پڑھیں گے، مگر تبلیغی جماعت والے بھی یہاں اپنی کتاب پڑھنا بند کر دیں گے ۔ اس پر تبلیغ والے راضی ہو گئے ۔
اب مسجد میں تبلیغ والوں کی کتاب کا پڑھنا بند ہو گیا ۔تاہم تبلیغ والوں نے اپنا کام بند نہیں کیا۔ اب وہ مسجد کے دروازہ پر اپنا پر وگرام کرنے لگے۔ تبلیغ والوں نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ البتہ اخلاقی تدبیریں کرتے رہے ۔ مثلاً ایک بار انھوں نے سیوری کے سنی مسلمانوں کے سرکردہ افراد کو کھانے پر بلایا ۔ ان کے لیے عمدہ طریقہ پر دعوت کا انتظام کیا ، وغیرہ ۔
یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔ تبلیغ والے صبر کے ساتھ مسجد کے باہر اپنا پروگرام کرتے رہے۔ اسی کے ساتھ خوش اخلاقی اور خوش تدبیری کے ذریعہ ان کے دلوں کو نرم بھی کرتے رہے ۔ آخر کار تمام مخالف لوگ نرم پڑ گئے ، یہاں تک کہ انھوں نے تبلیغ والوں کو اجازت دے دی کہ وہ مسجد کے اندر آکر اپنا پروگرام کر سکتے ہیں ۔
یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے۔ اسی کے ذریعہ تمام مسئلے حل ہو سکتے ہیں، خواہ وہ مسئلہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان پیدا ہوا ہو یا مسلمان اور ہندو کے درمیان ۔
موجودہ دنیا آزادی کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا اختیار ہے۔اس لیے یہاں ایک دوسرے کے درمیان اختلاف کا پیش آنا عین فطری ہے ، اس کا حل ٹکراؤ میں نہیں۔اس کا واحد حل وہی ہے جس کو’’ حکمت اعراض‘‘ کہا جاتا ہے ۔