شکر کا ایروژن

ایک صاحب سے گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ دین میں سب سے زیادہ اہمیت شکر کی ہے۔ ہماری زندگی میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو شکر کے جذبے کوگھٹانے والے ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر مومن کو بہت زیادہ با شعور ہونا چاہیے۔ مومن کے لیے شکر کا ایروژن (erosion) ناقابلِ برداشت ہونا چاہیے۔

اصل یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں 99 فی صد شکر کی بات ہو اور صرف ایک فی صد منفی بات تو شیطان یہ کرتا ہے کہ وہ ایک فی صد منفی بات کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ 99 فی صد مثبت بات آدمی کی نظر سے اوجھل ہوجاتی ۔ وہ شکر کے سمندر میں رہتے ہوئے بھی ناشکری کے احساس میں جینے لگتا ہے۔ ایسے موقع پرآدمی کو چاہیے کہ وہ فوراً یہ کہے کہ:رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ (23:97)۔یعنی، اے اللہ!میں پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے وسوسوں سے۔ اِس کے بعد ان شاء اللہ، شیطان بھاگ جائے گا۔ یہ صرف عقیدہ کی بات نہیں، بلکہ یہی میرا تجربہ ہے۔

میں نے کہا کہ ناشکری کی کوئی بات دماغ میں آئے تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کو سرتاسر بے اصل سمجھے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ اس کو اپنے دماغ میں جگہ نہ دے۔ وہ اس کو بداہۃً قابلِ رد (prima facie its stands rejected)سمجھتے ہوئے فی الفور اپنے دماغ سے نکال دے۔

مثلاً 19 اکتوبر 2009 کا واقعہ ہے۔ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے قطر کا سفر ہوا۔ ہم لوگ تین آدمی تھے۔ کانفرنس میں لوگوں کو دینے کے لیے ہم قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دوسرے اسلامی لٹریچر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ائر پورٹ پر پہنچ کر ہمارے ساتھیوں نے اس کو چیک ان (check-in) کردیا۔قطر کے اِس سفر میں غیر معمولی قسم کی سہولیات کا تجربہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ قطر کے اِس چار روزہ سفر میں ہم کو غیر متوقع طور پر اتنی زیادہ سہولتیں (facilities) حاصل رہیں کہ ان کو اگر شاہانہ سفر کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔

دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر ہم لوگ داخل ہوئے تو فوراً ہی ائرلائن کی ایک خاتون نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا اور ہم کو ضروری رہنمائی دی۔ یہ منظر دیکھ کر دل سے دعا ء نکلی کہ خدایا، جب میں آخرت کے گیٹ پر پہنچوں تو وہاں بھی رحمت کا ایک فرشتہ اِس عاجزانسان کے استقبال کے لیے موجود ہو۔

دہلی ائر پورٹ پر میں نے قدم قدم پر خدا کی نصرت اور رحمت کے ایسے مناظر دیکھے کہ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے— خدایا، اگر میں دنیا کی تمام زبانیں جانتا اور تمام زبانوں کی ڈکشنریوں کے تمام الفاظ مجھ کو یاد ہوتے اورمیں تیری حمد اور تیرا شکر ادا کرتا تو میں اس کا حق ادا نہیں کرسکتا تھا۔ خدایا، اگر دنیا کے تمام درخت میرے لیے قلم بنا دئے جاتے اور تمام سمندر میرے لیے سیاہی ہوتے اور میں تیرے احسانات کو لکھنے بیٹھتا تو یقینا ایسا ہوتا کہ تمام قلم ختم ہوجائے اور تمام سمندر خشک ہوجاتے، تب بھی تیری حمد کا بیان ختم نہ ہوتا۔

یہ الفاظ جب میری زبان پر آئے تو اُس وقت میں نے سوچا کہ قرآن (31:27) میں جو یہ بات کہی گئی ہے ، بظاہر وہ خدا کی طرف سے ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ انسانی جذبات کا اظہار ہے۔ وہ علم الٰہی کا بیان نہیں، بلکہ وہ بندۂ مومن کا احساس ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کائنات میں تدبر کرکےانعامِ خداوندی کو اِس طرح دریافت کرے کہ واقعۃً اس کو یہ محسوس ہونے لگے کہ تمام درختوں کے قلم اور تمام سمندروں کی سیاہی بھی اس کے جذباتِ حمد کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom