اسلامی رواداری
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984ء) کے مقالہ نگارنے سائنس کی تاریخ (History of Science) کے موضوع پر تفصیلات پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ جس وقت اسلامی تہذیب عروج پرتھی، اس وقت مغربی یورپ میں تہذیب بالکل پست حالت میں تھی۔ پیغمبر اسلام کے پیروؤں کی فتوحات ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئیں۔ دسویں صدی عیسوی تک یہ حال ہوا کہ ایران سے لے کر اسپین تک تمام قوموں کی علمی زبان عربی بن چکی تھی۔
عرب فاتحین عام طور پر ان ملکوں میں امن اور خوش حالی لے آئے جہاں وہ آباد ہوئے ۔ مثال کے طور پر اسپین میں قرطبہ کے کتب خانہ میں اس وقت پانچ لاکھ سے بھی زیادہ کتابیں تھیں جب کہ پائرینیز کے شمال میں مشکل سے پانچ ہزار کتابیں پائی جاتی تھیں۔ مزید یہ کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بھی روادار تھے۔ چنانچہ مسلم عہدِ حکومت میں یہودی اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز تھے ،جب کہ اس زمانے میں یورپ کا یہ حال تھا کہ وہاں انھیں زندہ رہنے کا حق بھی مشکل سے دیا جاتا تھا :
The Muslims were tolerant of the other monotheistic faiths. So that Jews rose to high position in Islamic lands at a time when they were scarcely permitted survival in Europe (EB. 16/368).
موسیٰ بن میمون(1138-1204ء)یہودکے اکابر علماءمیں سے تھا۔ وہ کلدانی، یونانی، عبرانی اور عربی زبانیں جانتا تھا۔ یہود کے یہاں اُس کی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ انھوں نے اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی۔ انھوں نے کہا کہ موسیٰ سے موسی تک موسیٰ جیسا کوئی شخص پیدا نہیں ہوا ( من موسی الی موسى لم يظهر واحد كموسى)۔
موسی بن میمون کی پیدائش اندلس کے شہر قرطبہ میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ مصر پہنچا۔ اس وقت صلاح الدین ایوبی مصر کا حکمراں تھا ۔ اس نے موسیٰ بن میمون کو اپنا طبیب خاص مقرر کیا۔ موسیٰ بن میمون کی یہودیت کے باوجود صلاح الدین ایوبی (1137-1193ء)نے اس کی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہ کی۔