حمد خداوندی
بسم اللہ کے بعد قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:2)۔ یعنی، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو جو نعمتیں (blessings)دی ہیں، ان کے جواب میں انسان سے کیا رسپانس مطلوب ہے۔ یہ حمد کا رسپانس ہے۔ حمد کا مطلب شکر اور تعریف کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مگر انسانی استعمال کے اعتبار سے شاید زیادہ بامعنی لفظ ہے اعتراف (acknowledgement)۔ یعنی ان نعمتوں کو دریافت کرنا، اور دل کے سچے جذبہ کے ساتھ ان کا اعتراف کرنا۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان سے شکر یا تعریف کا لفظ بول دیا جائے۔ اعتراف کا آغاز دریافت (discovery)سے ہوتا ہے۔ پہلے انسان ان نعمتوں کو دریافت کرتا ہے، اس کے بعد اس کے دل میں اعتراف کا جذبہ امڈتا ہے، اور پھر ان وفور جذبات کا اظہار مختلف الفاظ کی صورت میں بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے نکل پڑتا ہے۔ گویا شکر وہ ہے، جس کے اندر گہرے جذبات کا طوفان شامل ہو۔ شکر وہ ہے، جو دل کو تڑپادے، جو آنسوؤں کی صورت میں امڈ پڑے۔ شکر وہ ہے، جس کے اندر انسان کی پوری شخصیت شامل ہوجائے۔
شکر یہ نہیں ہے کہ زبان سے کچھ الفاظ بول دیے جائیں۔ شکر گہرے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ ایک شاعر نے ایک گہرے جذبے کا ذکر کرنا چاہا، تو اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
اس بات کے کہنے کو کہاں سے جگر آئے
حقیقت یہ ہے کہ سچا اعتراف وہ ہے، جس کے احساس سے آدمی کا دل پھٹنے لگے، جس کو بیان کرنے کے لیے انسان کی ڈکشنری کے الفاظ ناکافی نظر آئیں۔ سچا اعتراف انسان کی پوری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔سچے اعتراف میں آنکھ کے آنسو، اور زبان کے الفاظ اس طرح ایک دوسرے میں شامل ہوجاتے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔