اعراض کاطریقہ
سورہ الاعراف میں اہل ایمان کو چند اخلاقی نصیحتیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ باہمی معاملات میں اعراض کا طریقہ اختیار کیاجائے۔ آیت کےالفاظ یہ ہیں: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ (7:199)۔ یعنی، درگزر کرو، نیکی کاحکم دو اور نادانوں سے اعراض کرو۔
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے درمیان بحث اور تکرار شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع پر درست طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر فریق ثانی سنجیدہ ہو، وہ مسئلہ کو حقیقی طور پر سمجھنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں دلیل کے ذریعہ اس کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہیے۔ اور اگر وہ سنجیدہ نہ ہو تو ایسی حالت میں دلیل اور منطق اس کو متاثر نہ کر سکے گی ۔ وہ ہر دلیل کے جواب میں کچھ خود ساختہ الفاظ بول دے گا اور پھر یہ سمجھے گا کہ اس نے پیش کردہ دلیل کورد کر دیاہے۔
اس دوسری صورت میں درست طریقہ یہ ہے کہ اعراض(avoidance) کے اصول پر عمل کیا جائے۔ اعراض کامقصد دراصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے ضمیر کے حوالہ کر دیاجائے۔ عین ممکن ہے کہ جو مقصد دلیل کے ذریعہ پورانہیں ہوا وہ ضمیر کی خاموش آواز کے ذریعہ پورا ہو جائے۔
عملی نزاع کوختم کرنے کے لیے بھی سب سے زیادہ موثر ذریعہ اعراض ہے۔ عملی نزاع کے وقت اگر اعراض کاطریقہ اختیار کیاجائے تو نزاع اپنے پہلے ہی مرحلہ میں ختم ہوجائے گی۔ جب کہ اعراض نہ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ نزاع بڑھتی رہے، یہاں تک کہ چھوٹی برائی (lesser evil) کی جگہ بڑی برائی(greater evil) کاسامنا کرنا پڑے۔
اعراض کوئی سادہ چیز نہیں، وہ ایک اعلیٰ اخلاقی روش ہے۔ وہ ایک اعلیٰ انسانی طریقہ ہے ۔ کوئی شخص جب اشتعال کی صورت پیش آنے پر بھڑک اٹھے تو وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک پست انسان ہے۔ اس کے برعکس، جوآدمی اشتعال کی صورت پیش آنے پر نہ بھڑکے۔ وہ ایسا کرکے یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ ایک بلند انسانی مرتبہ پر ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اعلیٰ انسان کہے جانے کا مستحق ہے۔