منفی سوچ کا مزاج
قرآن میں ایک کردار کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے۔ یہ دو آیتیں ہیں، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے— اور ان کو اس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں تو وہ ان سے نکل بھاگا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین کا ہو رہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا۔ پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر بوجھ لادے تب بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔ پس تم یہ احوال ان کو سناؤ تاکہ وہ سوچیں(7:175-176)۔
یہاں آیت سے مراد ربانی رہنمائی ہے اور ہانپنے سے مراد شکایت کا مزاج (complaining mentality)ہے۔جو شخص یا گروہ ربانی رہنمائی سے سبق نہ لے ، وہ ہر حال میں شیطان کا پیرو بن جائے گا۔ ایک صورتِ حال میں ایک قسم کی منفی بات کہے گا اور اگر صورتِ حال بدل جائے تو وہ دوسری قسم کی منفی بات بولنا شروع کردے گا۔مثلاً ایک شخص اگر شیطان کے زیر اثر منفی انداز میں سوچنے کا عادی بن جائے ۔تواس کا حال یہ ہوگا کہ اگر اس کو ایک اعتبار سے اچھے حالات ملیں تو وہ غلط تقابل کرکے اس میں شکایت کا ایک پہلو نکال لے گا۔اور اگر حالات بدل جائیں تو وہ دوبارہ اپنی بےاعترافی کے مزاج کی بنا پر ایک اور پہلو شکایت کا نکال لے گا۔ وہ دونوں حالتوں میں منفی بولی بولے گا۔ ایک نوعیت کے حالات ہوں تب بھی، اور دوسری نوعیت کے حالات ہوں تب بھی۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، زندگی کسی کے لیے بھی مکمل طور پر بے مسئلہ نہیں ہوتی۔ کبھی ایک مسئلہ تو کبھی دوسرا مسئلہ۔ اس معاملے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنی منفی سوچ کو بدلے۔ وہ بظاہر شکایت کے حالات میں بھی مثبت ذہن سے سوچنے کا طریقہ اپنائے،وہ مکمل طور پر مثبت انداز میں سوچنے والا بن جائے۔