محرّک شکر
تقریباً تیرہ بلین سال پہلے سولر سسٹم وجود میں آیا۔ اس وقت زمین کے اوپر صرف گیس تھی۔ پھر گیس کے ذریعے پانی بنا۔ پانی کا فارمولا H2O ہے، یعنی زمین میں ایسے مالیکیول (molecule) رکھ دیے گئے، جس میں ہائڈروجن کے دو ایٹم ہوتےتھے، اور آکسیجن کا ایک ایٹم۔ اس طرح زمین کے اوپر پانی وجود میں آیا۔ یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتدامیں نیچر نے اس پانی میں حفاظتی مادہ (preservative) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ جب سمندرکی سطح پر سورج کی حرارت پہنچی تو سمندر کا پانی فطری قانون کے تحت ازالۂ نمک (desalination) کے پراسس سے گزر ا،یعنی پانی بھاپ بن کرنمک سےالگ ہو گیا۔ نمک سمندر میں رہ گیا، اور پانی بھاپ بن کر فضا میں بلندہوا، وہاں وہ بادل بنااور آخر کار وہ پانی بارش کی صورت میں دوبارہ زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائیکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے لیے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً یہی وہ عظیم حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوهَا (16:18)۔ یعنی، اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کو گن نہ سکو گے۔