سنتِ صبر
صبر کیا ہے ، صبر یہ ہے کہ جذبات یا اشتعال کے موقع پر اپنے آپ کو تھا ماجائے۔ جوابی کارروائی کرنے سے پہلے اپنے جذبات کو روک کر یہ سوچاجائے کہ میر ے لیے اس موقع پر صحیح ردِّعمل کیا ہے اور زیادہ نتیجہ خیز کا رروائی کیا ہو سکتی ہے۔
کبھی جذبات کو روک لینے کانام صبر ہے، کبھی صبر اس کانام ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو جوابی اقدام سے باز رکھا جائے اور کبھی صبر یہ ہوتا ہے کہ اقدام توکیا جائے مگر وہ منصوبہ بنداقدام ہو نہ کہ محض جذباتی اقدام۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایک مخالف اگر کسی کو نقصان پہنچائے تو وہ اس پر صبر کرلے یا وہ اس کا توڑ کرنے کی کوشش کرے۔
جواب یہ ہے کہ صبر کا مطلب خواہ مخواہ نقصان اٹھانا نہیں ہے۔ صبر کامطلب یہ ہے کہ غیر موافق صورت ِحال پیش آنے کے بعد ٹھنڈے ذہن سے آپ یہ سوچیں کہ آپ کاجوابی اقدام آپ کے حق میں کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرے گا یا آپ کے نقصان میں مزید اضافہ کا سبب بن جائے گا۔ صبر کا مطلب اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچانا ہے،نہ کہ غیرضروری طور پر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا۔صبر کبھی عمل کانام ہوتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو عمل سے روک لینے کا،یہ دراصل حالات ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں کہ کسی موقع پر کون ساصبر مطلوب ہے۔
صبر اور بے صبری میں یہ فرق ہے کہ بے صبرآدمی نتیجہ پر غور کیے بغیر حالات کے طوفان میں کود پڑتا ہے۔ اورصبر والا آدمی صورتِ حال پیش آجانے کے بعد پہلے سنجید گی کے ساتھ غور کرتا ہے ، لوگوں سے مشورہ کرتا ہے ، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت وہ کارروائی کرتا ہے جو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز ہو سکے ۔ صبر حکمت ِعملی کانام ہے اور بے صبری یہ ہے کہ آدمی وقتی کیفیت سے متاثر ہو کر ایسا اقدام کربیٹھے جس کا حکمت اور دوراندیشی سے کوئی تعلق نہ ہو۔