حمد ِ دنیا، حمدِ آخرت
قرآن کی ایک آیت یہ ہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:2)۔یعنی، ساری حمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ یہ آیت دنیا کی زندگی میں اہلِ ایمان کے روز وشب کا حال بتاتی ہے۔اہلِ جنت جب آخرت میں پہنچیں گے اور جنت میں داخل کردئے جائیں گے تو وہاں ان کا مشغلہ کیا ہوگا، اس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (10:10)۔ یعنی، وہاں ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔ اہلِ جنت کا ایک اور قول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (35:34)۔ یعنی، شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔
ان آیتوں پر غور کیجیےتو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ جنت دنیامیں کس طرح زندگی گزاریں گے۔ اور پھر آخرت میں ان کو کس قسم کی زندگی حاصل ہوگی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی ان کی زندگی، حمدِ رب کی زندگی ہوگی، اور آخرت میں بھی ان کے صبح وشام رب العالمین کی حمد میں گزریں گے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں انھوں نے حمدِ رب کی زندگی دار الکبد (البلد،90:4)میں گزاری ہوگی، آخرت میں ان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ حزَن سے خالی دنیا (الفاطر،35:34) میں اعلی معیاری درجے میں حمدِ رب کی توفیق پائیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی قیمت کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ذہنی طورپر اتنا ارتقا یافتہ بنائےکہ وہ حزَن اورکبَد کے حالات میں بھی اعلی معرفت کی سطح پر زندگی گزارے۔
گویا کہ انسان سے جوچیز اصلاً مطلوب ہے، وہ حمد رب ہے۔ دنیا میں بھی حمد، آخرت میں بھی حمد۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ کی رحمت (blessing) کا نتیجہ ہے۔ پھر پیدا ہونے کے بعد جس دنیا میں وہ زندگی گزارتا ہے، وہ پوری کی پوری رحمتوں کی دنیا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے واحد طرزِ زندگی صرف یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اس حقیقت کو یاد رکھے، وہ ہر موقع (occasion) پر اللہ کی بے پایاں رحمت کا اعتراف کرے۔ اس کی شعوری بیداری اس درجہ تک پہنچ جائے کہ ہر چیز سے اس کو حمد خداوندی کا رزق ملنے لگے۔ یہ حالت ایک اعتبار سے دنیا میں اللہ رب العالمین کا اعتراف ہے۔ یہ اس فطری تقاضے کو پورا کرنا ہے جو تخلیق کے اعتبار سے انسان کے اندر ہونا چاہیے۔ یہی انسان وہ ہے جس نے دنیا میں سچا انسان بن کر زندگی گزاری۔
دنیا میں اس طرح زندگی گزارنے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہی سچا انسان وہ انسان ہے جس کو آخرت کی جنت میں وہ درجہ ملے گا جس کو قرآن میں ان الفاظ بیان کیا گیا ہے: فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ (54:55)۔یعنی، وہ بیٹھے ہوں گے سچی بیٹھک میں، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ دنیا میں جو لوگ سچائی کی زندگی گزاریں ، ان کو اس کا یہ انعام ملے گا کہ وہ آخرت میں سچائی کی سیٹ (seat of truth) پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا سب سے اعلی درجہ یہ ہے کہ وہ معرفت خداوندی میں زندگی گزارے۔ وہ اپنی زندگی کے لمحات اس طرح گزارے کہ وہ مسلسل طور پر اللہ کی نشانیوں کو دریافت کررہاہو۔ آلاءُ اللہ (wonders of God) بلاشبہ کائنات کی سب سے بڑی چیزیں ہیں۔ سچا انسان وہ ہے جو دنیا کی زندگی میں الاء اللہ میں جیے۔ اور آخرت میں وہ زیادہ اعلی صورت میں الاءاللہ اور حمد الٰہی میں جینے کا مرتبہ پائے۔
قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ لذیذ لمحہ (joyous moment)وہ ہے، جب کہ وہ اپنے رب کی قربت حاصل کرے، جب کہ وہ کائنات میں تخلیق کی معنویت کو دریافت کرے، جب کہ اس کا اعلیٰ تصور اس کو فرشتوں کا ہم نشین بنادے، جب کہ وہ اعلی معرفت کا شعوری تجربہ حاصل کرے، جب کہ وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلےجنت کی معرفت حاصل کرلے۔
یہی انسان کی حقیقی زندگی ہے۔ یہ زندگی ایک سچے انسان کو دنیا میں ابتدائی طور پر حاصل ہوتی ہے، اور آخرت کی جنت میں یہی زندگی اس کو اپنی اعلی صورت میں حاصل ہوگی۔گویا کہ سچا انسان وہ ہے جو اسی دنیا میں اللہ رب العالمین کے پڑوس میں جینے لگے، یہی وہ زندگی ہے، جو جنت میں اس کو زیادہ اعلی درجے میں حاصل ہوگی۔