صبر واعراض کا اصول
موجودہ زمانے میں مسلمان عام طور پرشکایت کی نفسیات میں جی رہے ہیں، وہ دوسری قوموں کو غیر بلکہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کے مقررین ومحررین ہمیشہ دوسروں کے خلاف شکایت کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوگا:
Should you ignore Gujarat 2002, Assam, Muzaffarnagar, etc., or the umpteen fake terror cases/encounters or the daily conspiracies of the Sangh Parivar in so many ways that make life difficult for the Muslim community.
مگر اس معاملے میں قرآن کا جواب مختلف ہوگا، اور وہ یہ کہ آپ کو اِس قسم کے منفی واقعات کو نظر اندازہی کرنا ہے۔ آپ کو اپنے مفروضہ دشمن کی نام نہاد سازشوں کو بھلا کر اپنی زندگی کو مثبت بنیاد پر تعمیر کرنا ہے۔ قرآن میںاس طریقے کو صبر واعراض کہاگیا ہے، اور صبر واعراض کے بغیر کوئی قوم اس دنیا میں ہرگز ترقی نہیں کرسکتی۔
اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا (14:12) ۔ یعنی، اور جو تکلیف تم ہمیں دوگے ہم اس پر صبر ہی کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کو بنانے والے نے اس کو آزادی اورمقابلہ (competition) کے اصول پر بنایا ہے۔ یہاں کوئی بھی نظام ہو، اور کسی کی بھی حکومت ہو، ہمیشہ ایک کو دوسرے سے کچھ نہ کچھ ایذاء(harm) کا تجربہ ہوگا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے واقعات کو شکایت کا موضوع نہ بنائے بلکہ وہ اس کو مینیج (manage) کرنے کی تدبیر کرے۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔ یعنی، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی سازش تم کو نقصان نہ پہنچائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق اس دنیا میں اصل مسئلہ سازش (conspiracy) کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر صبر اور تقوی کی صفت نہ پائی جائے۔ اس لیے سازش کے خلاف شکایت کرنا مکمل طورپر ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ لوگوں کے اندر صبراور تقوی کی صفت پیدا کی جائے تاکہ سازش کرنے والوں کی سازش عملاً موثر نہ ہوسکے۔
قرآن کی تعلیمات کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ انسان کے بارے میں خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس تخلیقی منصوبہ کو جانے، اور اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں کا نقشہ بنائے۔ کوئی فرد یا کوئی قوم اگر اس تخلیقی منصوبے کو نظر انداز کرے اور خود اپنے ذہن کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے تو یقینی طورپر اس دنیا میں اس کا منصوبہ ناکام ہوجائے گا۔ یہی حقیقت پسندی ہے، اور اس دنیا میں حقیقت پسندی ہی سب سےبڑا اصول ہے۔
قرآن میں انسان کی پیدائش کی حکمت کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)۔یعنی، اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا ہے۔
اس حکمت ابتلا کی بنا پر ، ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے۔ جب انسان اپنی آزادی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے تو اس سے فطری طورپر دنیا میں چیلنج اور مسابقت (competition) کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
چیلنج اور مسابقت کا یہ ماحول لازماًدنیا میں رہے گا۔ اس بنا پر یہاں لازماً ایسا ہوگا کہ ایک کو دوسرے کی طرف سے غیر مطلوب صورت حال (unwanted situation)کا سامنا پیش آئے گا۔ اس صورت حال کے خلاف شکایت کرنا بھی بے فائدہ ہے، اور اس سے لڑنا بھی بے فائدہ۔ کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی حکیمانہ تدبیر کے ساتھ اس کا سامنا کرے۔ خالق کے قائم کردہ نظام کے مطابق اس دنیا میں کامیابی کا یہی واحد اصول ہے۔
اسی حکیمانہ روش کا نام صبر و اعراض ہے۔ صبر واعراض دانش مندانہ طریقِ زندگی کا دوسرا نام ہے۔ صبر واعراض اپنی حقیقت کےاعتبار سے اقدام ہے، اگرچہ نادان لوگ اس کو پسپائی سمجھ لیتے ہیں۔صبر واعراض اعلیٰ انسانی اخلاق کا دوسرا نام ہے۔