واقعاتِ شکر
ستمبر 2003 ءکو میرٹھ کے لیے میرا سفر ہوا۔ سفر کرتے ہوئے ہم لوگ وہاں پہنچے جس کو میرٹھ -ہاپوڑ بائی پاس کہاجاتا ہے۔ یہاں الرسالہ کے قارئین کی ایک جماعت ہمارے انتظار میں کھڑی ہوئی تھی۔ مثلاً مولانا محمد عرفان قاسمی صاحب، ساجد خاں صاحب، ڈاکٹر شہزاد علی صاحب (وفات 2009ء)، وغیرہ۔عام طور پر سیاسی لیڈروں کا حال یہ ہے کہ جب وہ اس طرح کسی مقام پر پہنچیں اور وہاں لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوں تو اس منظر کو دیکھ کر وہ فخر کے جذبات سے بھر جاتے ہیں۔مگر میرا حال برعکس، طورپر یہ ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ شکر کے آنسو تھے۔ میں نے سوچا کہ پچھلے زمانہ میں کبھی ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں موبائل ٹیلیفون نے اس کو ممکن بنا دیا ہے۔ موبائل ٹیلیفون اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ آپ کسی بھی مقام سے کسی بھی مقام کے لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، حتٰی کہ آپ سفر میں ہوں تب بھی۔ چنانچہ سفر کے دوران موبائل ٹیلیفون کے ذریعہ ہمارا رابطہ قارئین الرسالہ کے مذکورہ افرادسے جاری رہا۔ دوران سفر اس ٹیلیفونی رابطہ کا نتیجہ تھا کہ جب ہماری گاڑی مذکورہ بائی پاس پر پہنچی تو وہاں الرسالہ کے قارئین پیشگی طور پر ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔
*****
ایک مرتبہ میرے پاس ایک مسلمان ملاقات کے لیے اپنی نئی کار پر بیٹھ کر آئے۔ ان کے ہاتھ پر ایک شاندار گھڑی بندھی ہوئی تھی اور جیب میں خوبصورت قلم لگا ہوا تھا۔ ان کے چہرے پر لگی ہوئی خوبصورت عینک دیکھی جو ان کے شخصی وقار میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ بیٹھتے ہی مسلمانوں کی زبوں حالی کی داستان سنانے لگے۔ اتنے میں ان کی جیب میں رکھے ہوئے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اس کو کان پر رکھ کر وہ دور کے کسی صاحب سے بات کرنے لگے۔ جب وہ بات کرچکے تو میں نے ان سے پوچھا کہ جس عثمانی دور اور مغل دور کو آپ لوگ اپنے لیے بڑی چیز سمجھتے ہیں کیا اس زمانہ میں کوئی ایک بھی مسلمان ایسا تھا جس کے پاس موبائل یاٹیلی فون ہو یا اس کے پاس موٹر کار ہو یا اس کے پاس ایسی گھڑی ہو جو آپ اس وقت پہنے ہوئے ہیں، یا وہ آپ جیسی عینک پہن سکتا ہو جو آپ کی شخصیت کو دوبالا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کا ایک مسلمان قدیم زمانہ کے نوابوں اور بادشاہوں سے بھی زیادہ بہتر زندگی گزار رہا ہے۔ ایسی حالت میں آپ لوگوں کو یہ کرنا چاہیے کہ پہلے سے بھی زیادہ آپ لوگ خدا کا شکر ادا کریں، نہ یہ کہ شکایت اور مایوسی کی بات کرکے اپنے سینہ کو ناشکری کا قبرستان بنا لیں۔
*****
دسمبر 1993ء کے اردو اخبار میں دہلی کے ایک مسلم لیڈر نے مسلمانوں سے یہ اپیل کی تھی که وہ 23 دسمبر کو بابری مسجد پر غیرقانونی قبضہ کی یا دگارمنائیں ۔ عملاً یہ اپیل ان سنی ہوکر رہ گئی۔ تاہم میں نے سوچا کہ یہ نام نہادمسلم لیڈر اگر ہوش مند ہوتے تو وہ مسلمانوں سے کہتے کہ اب تم یوم احتجاج منانا چھوڑ دو ، اب تم یوم تشکر مناؤ ۔ کیوں کہ ملک کی انتہاپسند طاقتوں نے 44 سال کے اندر اپنی تمام تخریبی طاقت استعمال کر ڈالی۔ اس کے با وجو دملت اسلامی کاقافلہ انڈیا میں اور ساری دنیا میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس قسم کے واقعات ہماری گاڑی کے لیے گو یا راستہ کی وہ رکاوٹیں (frictions) ہیں جو گاڑی کوبحفاظت منزل تک پہچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔
*****
فروری 1994ء میں مراکو کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ مراکو کی راجدھانی رباط پہنچنے کے بعد کل شام کو میں نے اپنے دہلی کے دفتر کو ایک فیکس روانہ کیا تھا۔ آج وہاں سے اس کا جواب آگیا۔ اس کو دیکھ کر میری زبان سے شکر کا کلمہ نکلا ۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیسے کیسے وسائل دے دیے ہیں۔ یہ سن کر ایک عرب نوجوان نے کہا کہ آپ ان چیزوں پر شکر ادا کر رہے ہیں ، حالاں کہ میں نے ایک بڑے شیخ کو ان ذرائع کی مذمت کرتے ہوئے سنا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں ان ذرائع مواصلات کے ذریعہ شیطانی باتیں ہر جگہ تیزی سے پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ جدید آلات سب شیطان کے کام ہیں اور ہمیں ان سے جنگ کرنا چاہیے:
’’الكلمات الشيطانية في هذه الايام ترسل عن طريق الاتصالات المدينة ر ومنها الفاكس الى كل مكان بسرعة ، فھذه الاجھزة المنظورة كلھا عمل شيطانى يجب علينا محاربتھا‘‘۔
میں نے کہا کہ شیخ نے بڑی عجیب بات کہی۔ یہ جدید ذرائع تو امکا نات فطرت کا استعمال ہیں۔ جو چیز بری ہے وہ استعمال ہے، نہ کہ خود ذرائع۔ اور برا استعمال تو لوگ مذہب تک کا کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے غلط استعمال کی مذمت کر نی چاہیے، نہ کہ خود ان اشیاء کی۔
اگر تاریخی تبدیلیاں مساعدت کے لیے موجود نہ ہوں تو ایسی ہر تحریک فساد او ر خوں ریزی پر منتج ہوتی ہے۔ اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کو صرف پرامن دعوتی جد و جہد تک محدود رکھیں ۔ یہاں تک که ده ضروری تاریخی امکانات پیدا ہوجائیں جن کو استعمال کر کے سیاسی انقلاب کے مرحلہ تک پہنچنا ممکن ہوجائے ۔
*****
ستمبر 1993 ءمیں میں برطانیہ میں تھا۔ وہاں قیام کے زمانہ میں مجھے ایک کتاب ملی ۔ اس کا نام تھا: مسلمو بورما حملات اباده ۔ اس میں برما کے مسلمانوں پر مظالم کی داستان بتائی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ برما کی حکومت وہاں کے مسلمانوں کو فنا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر یہ واقعہ کا نصف ثانی ہے۔ اصل یہ ہے کہ برما کے ایک حصہ میں مسلمانوں نے علیحدگی کی تحریک چلائی ۔ اس کے نتیجے میں وہ وہاں معتوب ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ برما میں امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔
اس سفر میں ایک عرب نوجوان نے ایک رپورٹ پڑھنے کے لیے دی ۔ اس کا عنوان تھا :
بريطانيا -مشكلات المسلمین
اس کے مطابق برطانیہ کا کیس مسلمانوں کے لیے گو یا مشکلات کا کیس تھا۔ اس میں برطانی مسلمانوں کی مشکلات کے ذیل میں بغض، سیکولر تعلیمی نظام، نسل پرستی اور تشدد کو شمار کیاگیا تھا ۔اس کے بعد کہا گیا تھا کہ برطانیہ کے مسلمان اگر ان مشکلات کو حل کر لیں تو یہاں اسلام کے لیے عظیم مستقبل ہے ( ان الإسلام في بريطانيا سيكون له مستقبل عظيم اذا تمكنوا من حل المشكلات السابقة ، ص492)۔
اس کو پڑھنے کے بعد میں نے کہاکہ ان الفاظ میں موجودہ زمانہ کے مسلم دانشوروں کی سب سے بڑی غلطی کا راز چھپا ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل کی تعمیرکا آغاز مشکلات کو ختم کرنے سے ہوتا ہے۔ حالاں کہ مستقبل کی تعمیر کاصحیح آغاز یہ ہے کہ مشکلات کو نظرانداز کر کے مواقع کو استعمال کیا جائے( زعماء المسلمين يعتقدون أن بناء المستقبل يبدأ من حل المشاكل۔ والصحيح ان بناء المستقبل يبدأ من الاعراض عن المشاكل واستغلال الفرص)۔
*****
29ستمبر1993 ءکو فجر کی نمازبرمنگھم کی سنٹرل مسجد (مرکزی مسجد) میں پڑھی۔ اس میں بیک وقت تین ہزار آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اب ایک اور مسجد بنائی جا رہی ہے جس میں پانچ ہزار آدمیوں کےلیے گنجائش ہوگی ۔نماز کے بعد ایک مجلس میں میں نے کہا کہ فجر کی نماز کے بارے میں ایک بڑی عجیب حدیث ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ— مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر657)۔یعنی، جس نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ خدا کی ذمہ داری میں آگیا۔ گو یا فجر کی نماز اللہ کی طرف سے حفاظت کی گارنٹی ہے۔
پھر میں نے کہا کہ یہ کوئی پر اسرار بات نہیں، بلکہ ایک ایسی بات ہے جو غور وفکر سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز آدمی کے اندر وہ صفات پیدا کرتی ہے جس کے بعد آدمی لوگوں کی دست برد سے محفوظ ہو جائے۔مثلاً نماز کی چند باتوں کو لیجیے ۔ آپ بستر سے اٹھ کر سب سے پہلے وضو کرتے ہیں۔ وضو گویا ایک علامتی فعل کے ذریعہ اس بات کا عزم ہے کہ آپ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے پاک رہیں گے۔ پھرنماز میں بار بار اللہ اکبر کہتے ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ آپ اللہ کی بڑائی کے احساس میں جئیں گے اور تواضع کی روش اختیار کریں گے۔ پھر آپ ہر رکعت میں الحمد اللہ رب العالمین کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر کریں گے۔ جو بھی اللہ نے دیا ہے اس پر قانع رہیں گے۔ آخر میں آپ دونوں طرف رخ کر کے کہتے ہیں کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔گویا کہ آپ اہل عالم کو بتا رہے ہیں کہ ان کےلیے آپ کے دل میں صرف رحمت اور سلامتی کا جذ بہ ہو گا۔
صبح کی نماز میں جو لوگ اس قسم کے اخلاق کی تربیت پاکر نکلیں ان کا یہ اعلیٰ انسانی اخلاق خود ہی ان کی محبوبیت اور حفاظت کی ضمانت بن جائے گا۔
*****
اسپین کاسفر ہوا۔11 دسمبر کی رات کو دہلی سے روانگی ہوئی اور19 دسمبر 2003ء کو سفر سے واپسی ہوئی۔12 دسمبر کی صبح کو میں اسپین کی راجدھانی میڈرڈ کے ائر پورٹ پر پہنچ چکا تھا۔ میڈرڈ ائرپورٹ نہایت وسیع اور شاندار ہے۔ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے ہر قسم کا اعلیٰ انتظام تھا۔ جب میں میڈرڈ کے شاندار ائر پورٹ پرچل رہا تھا تو بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے روتے ہوئے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ جو چیز کھوئی گئی وہ اعتراف اور انسانیت کی خیر خواہی ہے۔ اگر ان کے اندر یہ صفت موجود ہوتی تو وہ اس واقعہ پر تڑپ اٹھتے۔ وہ یہاں آکر ان لوگوں سے کہتے کہ ہم آپ کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم نے انسانی قافلہ کو روایتی ترقی کے دور تک پہنچایا تھا، آپ نے اپنی محنت سے انسانیت کو سائنسی ترقی کے دور تک پہنچا دیا اور تاریخ میں پہلی بار ایک خوبصورت دنیا تعمیر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آئیے ہم دونوں مل کر خالق کا شکریہ ادا کریں۔ تاکہ ہم دونوں خدا کی زیادہ بہتر دنیا میں داخلہ کے مستحق قرار پائیں۔ وہ معیاری دنیا جس کی صرف ایک جھلک خدا نے آج کی دنیا میں رکھی ہے تاکہ ہم بعد کی زیادہ بہتر دنیا کا پیشگی تعارف حاصل کرسکیں،یعنی وہ دنیا جس کا نام جنت ہے۔
*****
12 دسمبر 2003ء کو نئی دہلی سے اسپین کے لیے سفر ہوا۔ اسپین پہنچنے کے بعد اشبیلیہ ائرپورٹ سے شہر کی طرف روانگی ہوئی۔ سڑک کافی چوڑی اور ہموار تھی۔ سڑک کے دونوں طرف جدید طرز کے کھلے ہوئے مکان اور دکانیں نظر آئیں۔ پورا راستہ شاداب اور پر رونق تھا۔ یہ وہی شہر ہے جو مسلم دور میں اشبیلیہ کے نام سے مشہور تھا۔
میں نے سوچا کہ اگر قدیم اشبیلیہ اورجدید اشبیلیہ کو سامنے رکھ کر تقابل کیا جائے تو ایسا معلوم ہوگا کہ پہلے یہ ایک ٹاؤن تھا اور اب وہ ایک ماڈرن شہر ہے۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب اسپین کا حوالہ آتا ہے تو وہ صرف ’’آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی‘‘ جیسی زبان بولنا جانتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ جب کہ اسپین مسلم عہد کے مقابلہ میں آج زیادہ ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے تو اس قسم کی منفی باتیں کیوں۔ میری سمجھ میں آیا کہ موجودہ مسلمان اپنے مزاجی بگاڑ کی بنا پر خود اپنی عظمت پر فخر کرنا تو جانتے ہیں مگر وسیع تر معنٰی میں انسانی ترقی سے وہ اپنے آپ کو وابستہ نہ کرسکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کا ایک مسلمان مغل دور اور عثمانی دور اور اندلسی دور سے سو گنا زیادہ بہتر حالت میں رہتا ہے۔ مگر اپنے اس بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر وہ شکایت اور مایوسی کے سوا کوئی اور زبان بولنا نہیںجانتا۔ ورنہ اس کی زبان مثبت باتوں سے سرشار رہتی۔ وہ سمجھتا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ خدا کے شکر میں جینے والے بن جائیں۔
*****
بمبئی کے سفر (نومبر 2004ء) میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے زمانہ میں آدمی ناہموار راستوں پر اونٹ اور خچر سے سفر کرتا تھا۔ اس لیے پہلے زمانہ میں شکر کی کیفیت پیدا ہوتی تھی۔ اب لوگ موٹر کار اور ہوئی جہاز کے ذریعہ سفر کرتے ہیں اس لیے اب شکر کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ یہ ناواقفیت کی بات ہے۔ شکر بالفاظِ دیگر ربانی کیفیت کا نام ہے۔ یہ خداوندِ بَرتر کے مقابلہ میں اپنی عاجزانہ عبدیت کو دریافت کرنا ہے۔ جو لوگ اس احساسِ عبدیت سے خالی ہوں اُن کو نہ پچھلے زمانہ میں ربّانی کیفیت کا تجربہ ہوسکتا تھا اور نہ وہ موجودہ زمانہ میں اس اعلیٰ کیفیت کا تجربہ کرسکتے تھے، جس کو شکر کہا جاتا ہے۔
ایک اور صاحب نے کہا کہ دنیا کی نعمتوں کوکیوں نہ استعمال کیا جائے۔ اس سے تو خدا کے مُنعم ہونے کا تصوّر پیدا ہوتا ہے اور آدمی خدا کا شاکر بن جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ نعمتوں پر شکر کا یہ بہت ناقص تصور ہے۔ شکر کا اعلیٰ تصوریہ ہے کہ آپ سورج اور چاند کو دیکھ کر شکر گزار بندے بنیں۔ دریا کی روانی اور ہوا کے جھونکوں میں آپ کوشکرِ خداوندی کا پیغام پہنچ رہا ہو۔ درخت کی ہریالی اور زمین کی گردش آپ کے اندر شکر کا طوفان برپا کردے۔ حقیقی شکر کا مآخذ ذاتی آرام نہیں، بلکہ قدرت خدا وندی کی پھیلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ یہ بات قرآن کے ہر صفحے پر موجود ہے۔
*****
ایک اسلامی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے نومبر 1988 ءمیںمیراصنعاء( یمن) کا سفر ہوا۔ اس درمیان مہمانوں کو سد مارب (Marib dam)لے جایا گیا۔ یہ ایک تاریخی بند ہے جسے سد العرم بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی سورہ سبا آیت 15-16میں آیا ہے ۔ اس ڈیم کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے تاکہ اس ڈیم کی وجہ سے یہ تاریخی علاقہ یاد رکھا جائے ( يحي ذكرى ھذه المنطقة) ۔ یہ ڈیم گو یا انسان کے لیے اس بات کا نشان ہے کہ خدا کے شکر گزار بنو تو تمہارے لیے سب کچھ ہے اور ناشکری کرو گے تو اس کا نتیجہ دوبارہ وہی ہو گا جو قوم سبا کے ساتھ پیش آیا ۔
*****
اکتوبر 1988ء کو کابل میں ایک کانفرنس ہوئی۔ اس میں میری ملاقات ڈاکٹر میاں محمد سعید (حال مقیم واشنگٹن ) ہوئی ۔ انھوں نے 1962ءکا ایک واقعہ بتایا۔ اس وقت وہ لندن میں تھے۔ لندن یونیورسٹی میں ان کی ملاقات ڈاکٹر پدما مسرا سےہوئی۔ وہ ایک ہندستانی خاتون تھیں، جو اس لندن یونیورسٹی میں تھیں ۔ گفتگو کے دوران ڈاکٹر پدما مسرا نے ایک واقعہ بتایا۔
انھوں نے کہا کہ وہ بنارس اور لکھنؤ کے درمیان سفر کر رہی تھیں ۔ ان کے ڈ بہ میں لکھنؤ کی ایک مسلمان عورت بھی تھی جو ایک سیٹ پر اپنی گٹھری رکھے ہوئے بیٹھی تھی ۔ اس کے میلے کپڑے بتا رہے تھے کہ وہ کسی معمولی گھر کی ہے ۔غالباً وہ سبنری فروش گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔ اس دوران میں وہ ایک بار باتھ روم گئی ۔
اس کی غیر موجود گی میں ایک کھڑے ہوئے مسافر نے اس کی گٹھری ہٹادی اور جگہ بنا کر وہاں بیٹھ گیا۔ مذکورہ عورت جب با ہر واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی گٹھری ہٹی ہوئی ہے اور وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ سخت برہم ہوگئی۔ اس نے غصہ میں کہا:
نہ ر ہی نوابی، ورنہ تم کو زندہ دیوار میں چنُوا دیتی
یہ واقعہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر سعید صاحب نے کہاکہ مسلمانوں سےحکومت چلی گئی ، مگر ان کا حاکمانہ مزاج اب تک ان سے نہیں گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہی موجود ہ ز مانہ کے مسلمانواں کا اصل مسئلہ ہے ۔ آج جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ پیش آرہا ہے، وہ سب ان کے اسی مزاج کی قیمت ہے ۔ کوئی نعمت آدمی کوملے تو آ دمی کو اس پرشکر کرنا چاہیے ، اور جب وہ چھن جائے توصبر۔مگر مسلمانوں نے نہ پہلے شکر کیا اور نہ اب وہ صبر کرنے پرراضی ہیں۔
*****
دسمبر 1988ء میں امریکا میں منعقد ہونے والی ایک انٹرنیشنل سیرت کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ یہ کانفرنس اسلامک سوسائٹی کیلی فورنیا نے منعقد کیا تھا۔سفر کی تیاری کے آخری دنوں میں ایک مسئلہ پیش آیا ۔ میرے رفیقِ سفر کونئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ سے ویزا حاصل کر نے کے لیے ایک تحریر در کا رتھی جس میں بتایا گیا ہو کہ امریکہ کے متعلقہ اسلامی ادارہ نے ان کو بھی میرے ساتھ کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے، مگر وقت اتنا کم تھا کہ ڈاک کے ذریعہ سے امریکہ کا خط ہندستان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے امکانات کو استعمال کر کے جدید انسان نے اس مسئلہ کو حل کر لیا ہے ۔ چنانچہ امریکہ کے دفتر کو بذریعہ ٹیلی فون ضرورت بتائی گئی اور ایک گھنٹہ کے اندر ان کا دستخط شدہ خط دہلی میں موجود تھا۔
یہ تیز رفتار ترسیل اس آلہ کے ذریعہ ممکن ہوئی ہے جس کو موجودہ زمانہ میں تصویری مشین (Facsimile machine)کہا جا تاہے اور جس کا مختصر نام فیکس (Fax) ہے ۔ آپ ایک تحریر یا ایک خط تیار کر کے مشین میں ڈالیں ، اور ایک سکنڈ کے اندر وہ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ویسا ہی چھپا ہوا نکل آئے گا ۔
ابتدائی انسانی دور میں صرف پیدل پیغام رسانی کا طریقہ رائج تھا۔ پھر گھوڑوں کا استعمال ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹیلی گرام ،ٹیلی فون اور ٹیلکس (Telex) کے طریقے دریافت ہوئے ۔ اب فیکس کے طریقہ نے سب پر برتری حاصل کر لی ہے (موجودہ دور میں موبائل اور کمپوٹر اور انٹرنیٹ نے اس معاملے کو اور بھی آسان کردیا ہے)۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی زیادہ نعمتیں انسان کو دے رکھی ہیں ، مگر کتنے کم لوگ ہیں جو اس کا واقعی شکر ادا کر تے ہوں۔
*****
مارچ 1990ء میں ایک بین اقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے طرابلس کا میرا ایک سفر ہوا۔ جہاز کا بیشتر سفرخشکی کے اوپر ہوا۔ بالائی فضا میں پرواز کرتا ہوا ہمارا جہاز ہندستانی وقت کے لحاظ سے پانچ بجے بحر روم کے اوپر پہنچ گیا۔ اس جہازکو نہ خشکی کی پستی یا بلندی نے روکا، اورنہ سمندر اس کی راہ میں حائل ہوا ۔ وہ شہری آبادیوں کے اوپر سے بھی اسی طرح تیزی سے گزرگیا جس طرح کھلے میدانوں کے اوپر سے ۔
بے شمار لوگ روزانہ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں، اگرمسافروں کے چہرے اور ان کی گفتگوئیں بتاتی ہیں کہ اس قدرتی معجزہ کو سوچ کرکسی کے اندر تموج کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان، دونوں قسم کے لوگ ہوائی جہاز کا سفر تو کر رہے ہیں ، مگر ہوائی جہاز کے سفر کے دوران ان کا شعور ربانی مسافت طے نہیں کرتا۔ ان کا حال تقریباً اس چو پایہ کاسا ہے جس کو ایک مقام پر جہاز میں بیٹھا یا جائے اور لے جا کر اس کو دوسرے مقام پر اتار دیا جائے۔
لارڈ کرزن ایک بے حدمالدار خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ وہ انیسویں صدی کے آخر میں ہندستان کا بڑے جاہ وجلال کا وائسرائے بنا۔ مگر1898ء میں جب وہ ہندستان کا وائسرائے ہو کر روانہ ہواتولندن سے کلکتہ تک کا سفر طے کرنے میں اس کوسترہ دن لگ گئے۔ اس وقت ملک میں ہوائی جہاز کا سفررائج نہیں ہوا تھا۔ آج ایک عام آدمی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر چند گھنٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں پہنچ جاتا ہے۔
*****
17 مارچ کو میں نے فجر کی نمازد ہلی کے ہوائی اڈہ پر پڑھی تھی ، اس دن میں عصر کی نماز کے وقت طرابلس کے ہوائی اڈہ پر اتر گیا۔ موجودہ زمانہ میں تیزرفتا رسواریوں نے سفر کے معاملہ کو کتنا زیادہ آسان بنا دیا ہے ۔ ہوائی جہاز اپنے اندر سیکڑوں مسافروں کو بیٹھا کر ہوا میں اڑتا ہے اور خشکی اور پہاڑ اور سمندر کی ہر رکاوٹ کو عبور کر تے ہوئے نہایت تیز رفتاری کے ساتھ لوگوں کو ان کی منزل پر پہنچا دیتا ہے ۔ یہ کتنا حیرت ناک واقعہ ہے۔ آج بے شمار لوگ اس سفری سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر ان میں شاید ہی کوئی ہو جس کا حال یہ ہوکہ خد ا کی اس عظیم نعمت کو سوچ کر اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور وہ استعجاب(awe) کے سمندرمیں غرق ہوکر کہہ اٹھے: فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (55:13)۔ یعنی، پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
اسی سفر کا واقعہ ہے۔ایک دن ہوٹل کے طعام گاہ میں ایک میز پر ہم تین آدمی دن کا کھانا کھا رہے تھے۔ میرے سوا ایک شارجہ کے تھے اور دوسرے مصر کے۔ کچھ دیر بعد ایک اور مصری دکتور آئے۔ وہ ہماری قریب والی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ انھوں نے ایک منٹ انتظار کے بعد ہوٹل کے آدمی کو مخاطب کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں کہا:ھل المتأخرون يأكلون ام لا يأكلون ( بعد کو آنے والے کھائیں گے یا نہیں) ۔ تھوڑی ہی دیر میں آدمی نے کھانے کی پلیٹ لا کر ان کے سامنے رکھ دی ۔ حالانکہ عام حالت میں انھیں دیر میں کھانا پہنچنا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ مزاح اکثر حالات میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے ۔ وہ کھانے کے پورے وقت میں مزاحیہ اندا ز میں باتیں کرتے رہے۔
اکثر لوگوں کا انداز یہی ہوتا ہے ۔ مگر مجھے ذاتی طور پر یہ انداز بالکل پسند نہیں ۔ جس وقت کھانا سامنے رکھا ہوا ہو ، وہ انتہائی سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے۔ کھا نا ا للہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے۔ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی پر سب سے زیادہ شکر کا جذ بہ طاری ہونا چاہیے۔ ایسے موقع پرمزاحیہ کلام شکر کے احساسات کا قاتل ہے۔ دسترخوان کے اوپر سب سے بڑا کلام یہ ہے کہ آدمی خاموش رہے اور اللہ کو یا دکرتے ہوئے کھانا کھائے۔
*****
ایک سفر کے دوران 4مئی 1990ء کومیں جرمنی کے فرینکفرٹ ایر پورٹ پر ٹرانزٹ پیسنجر کی حیثیت سے اگلی فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا۔اس درمیان فجر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ تو میں نے ایرپورٹ پر ہی فجرکی نماز پڑھی ۔ ایک جرمن خاتون میری نماز کوغور سے دیکھتی رہی ۔ جب میں فارغ ہو کر اٹھا تو اس نے معذرت کے ساتھ پوچھا ’’کیا آپ یوگا کاعمل کر رہے تھے‘‘۔ میں نے کہا: نہیں، میں صلاۃ کا عمل کر رہا تھا ۔ وہ یوگا کو جانتی تھی ، مگر وہ صلاۃ کو نہیں جانتی تھی۔ اس نے پوچھا کہ صلاۃ کیا چیز ہے۔ میں نے کہا: کیا آپ خدا کو مانتی ہیں۔ اس نے کہا:ہاں۔ میں نے کہا :کیا آپ مانتی ہیں کہ خدا ہما را خالق اور رب ہے۔ اس نے کہا: ہاں ۔ میں نے کہا: پھر نماز اسی خالق اور مالک کی عظمت ادر اس کے احسان کا اعتراف ہے۔
خدا صبح لاتا ہے تو ہم جھک کر کہتے ہیں کہ خدا یا تیرا شکر ہے کہ تو نے میرے لیے دن کو روشن کیا تاکہ میں کام کروں ۔ خد اشام لاتاہے تو ہم جھک کر کہتے ہیں کہ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو میرے لیے رات لا یا تا کہ میں آرام کروں۔ اس طرح ہم رات اور دن میں پانچ بار خدا کی عظمت اور اس کے انعامات کا اعتراف کرتے ہیں۔ جرمن لیڈی بہت غورسے میری بات کوسنتی رہی ۔ اس کے بعد تھینک یو ، تھینک یو کہتی ہوئی چلی گئی۔
اسی ایرپورٹ پر ایک جرمن پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ وہ پروفیسر کارل ٹرال (Carl Troll) کے شاگردتھے ۔ انھوں نے بتایا کہ کارل ٹرال یونیورسٹی آف بون میں جغرافیہ کے پر وفیسر تھے۔ وہ 1899 میں پیدا ہوئے اور 1975 میں وفات پائی۔ وہ اپنے فن میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کوجغرافیہ دانوں کی عالمی یونین کا پریسیڈنٹ بنایا گیا:
International Union of Geographers
انھوں نے بتا یا کہ 1964 میں وکٹوریہ البرٹ ہال (لندن) میں پروفیسر کارل ٹرال کی تقریر تھی۔ اس میں مختلف ملکوں کے ممتاز سائنس داں جمع تھے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے پر وفیسر ٹرال نے کہا کہ سائنس داں کی حیثیت سے ان کی زندگی کا بنیادی تجربہ یہ ہے کہ وہ خالق کے زیادہ سے زیادہ احسان مند ہوتے چلے گئے اور تخلیقی عمل میں خدا کی عظمت کو دیکھ کر وہ حیران کن احساس سے بھر گئے :
''The basic experience of his life as a scientist has been that he became more and more grateful to the Creator and full of wonders at God's greatness in His works of creation''.
انھوں نے بتایا کہ پر وفیسر کارل ٹرال کے الفاظ پر حاضرین میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ اکثر سائنس داں اٹھ کر ان کے پاس آئے اور اظہار مسرت میں ان سے ہاتھ ملایا۔
یہ احساس ان تمام اہل علم کا ہے کہ جونیچر کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ کوئی جرات مند اس کا اعلان کر دیتا ہے ۔ اور کچھ لوگ اس کو اپنے دل میں لیے ہوئے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔
*****
مئی 1990ءمیں لفتھانزا کی فلائٹ کے ذریعہ میرا ایک سفر ہوا۔ دورانِ سفر لفتھانزا کی فلائٹ میگزین کے شمارہ مئی 1990 کو میں نے مطالعہ کے لیے کھولا۔ میگزین میں’’ اکسپرس کارڈ ‘‘ کا اشتہار ان لفظوں میں ایک پورے صفحہ پر چھپا ہوا تھا :
''Whatever your destination, all you need to get into 880 of Europe's best hotels is the American Express Card''.
یعنی آپ کی جو بھی منزل ہو ، یورپ کے880بہترین ہوٹلوں میں سے کسی ہوٹل میں جگہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ امریکی بینک کا امریکن اکسپرس کارڈ ہے۔
موجودہ زمانہ میں ہوٹلوں اور بینکوں کی عالمی تنظیم نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ آدمی دنیا کے کسی بھی حصہ میں اپنے لیے ہر قسم کی آسودگی اور مواقع اطمینان بخش طور پر پا سکے۔
اشتہار کو میں نے پڑھا تو قرآن کی وہ آیت یاد آگئی جس میں اہل جنت کی زبان سے جنت کے بارے میں کہلایاگیا ہے کہ— شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں(39:74) ۔
*****
11مئی 1990ء کو ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے میں سینیگال میں تھا۔ اس دوران وہاں کے ایک جزیرہ گوری (Goree) جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ چھوٹاسا جزیرہ دکار سے پانچ کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ جد ید طرز کی مشینی کشتی جب ہم لوگوں کو لے کر سمندر کی موجوں کے اوپر تیزی سے چلنے لگی تو بے اختیار میری زبان پر یہ آیت آگئی :وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (17:70)۔یعنی، اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔
جانور اپنے پیروں کے ذریعہ زمین پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کر کے خشکی کا سفر کرایا۔ مچھلیاں اپنی جسمانی محنت سے سمندر میں تیرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کشتیوں پر بٹھا کر سمندر کی سطح پر رواں دواں کیا۔ چڑیاں اپنے بازوؤں کے ذریعہ فضا میں اڑتی ہیں۔ اللہ تعالی ٰنے انسان کے لیے ہوائی جہاز پر بیٹھ کر فضا میں اڑنے کا انتظام کیا۔ یہ کیسا عجیب’’ كَرَّمْنَا ‘‘ کامعاملہ ہے جو انسان کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ مگر انسانوں میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں کے لیے حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہوں۔
محض’’ش ک ر‘‘ کو دہرانے کا نام شکر نہیں۔ شکر یہ ہے کہ آلا ءاللہ(اللہ کی کائناتی نشانیوں) کو سوچ کر آدمی کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں اور پھر زبان سے نکلے کہ خدایا تیرا شکر ہے۔
*****
24-28ستمبر 1990ء میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس طرابلس (لیبیا) میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی دعوت کے مطابق میں طرابلس میں تھا۔ 25 ستمبر کی شام کا وقت تھا ۔ میں اپنے کمرہ کی بالکنی پر کھڑا ہوا سامنے حدنظر تک پھیلے ہوئے بحیرۂ روم(Mediterranean Sea) کو دیکھ رہا تھا ۔ اس وقت سمندر میں کچھ تفریحی کشتیاں نظرآئیں، جو اپنے مسافروں کے ساتھ سمندر میں تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ رہی تھیں۔ فضا میں کچھ سمندری چڑیاں منڈ لارہی تھیں جو بار بار مچھلی پکڑنے کے لیے پانی میں گرتی تھیں ۔ ساحل سے ملی ہوئی سٹرک پر دوڑتی ہوئی کاروں کا منظر تھا جو اپنے مسافروں کو لیے ہوئے مسلسل چلی جارہی تھیں۔
ان چیزوں کو دیکھ کر میری سمجھ میں آیا کہ قرآن کی اِس آیت کا مطلب کیا ہے: (ترجمہ)’’ ہم نے آدم کی اولاد کی تکریم کی اور ہم نے ان کوسوار کیا(حَمَلْنَا)خشکی اور تری میں‘‘ (17:70)۔ اور اس آیت میں انسان کے لیے جس ’’تکریم ‘‘ کا ذکر ہے ، اس سے کیا مراد ہے۔ وہ یہ کہ انسان کے ساتھ’’حَمَلْنَا‘‘کا معاملہ کیا گیا ہے ، جب کہ حیوانات کے ساتھ ’’حَمَلْنَا ‘‘ کا معاملہ نہیں کیا گیا۔پاؤں والے جانور اپنے پیروں پر چلتے ہیں ۔ مچھلیاں اپنی طاقت سے تیرتی ہیں۔ چڑیاں اپنے بازوؤں کے ذریعہ اڑتی ہیں ، مگر انسان سواری پر بیٹھ کر اپنا راستہ طے کر تا ہے۔خشکی میں اس کے لیے گاڑی ہے ۔ سمندروں میں اس کے لیے کشتی ہے اور فضاؤں میں اس کے لیے ہوائی جہاز ہے ۔ گویا انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے شاہانہ معاملہ فرمایا ہے۔ جو لوگ اس عطیہ الٰہی کاحقیقی احساس کر کے اس چیز کا ثبوت دے سکیں جس کو حمد اور شکر کہا گیا ہے ، ایسے لوگوں کے ساتھ آخرت میں بھی شاہانہ معاملہ کیا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہواہے : وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا (76:20)۔ یعنی، اور تم جہاں دیکھو گے، وہیں عظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے۔
*****
مئی 1990ء میں سینیگال سے نئی دہلی کے لیےبذریعہ جنیوا میری واپسی ہوئی۔ جنیوا سے فرینکفرٹ کے لیے میں نے سوئس ایر544 سے اپنا سفر طے کیا۔ راستہ میں سوئس ایر کا میگزین (Swissair Gazette) مئی 1990 ءکاشمارہ دیکھا۔ اس شمارہ میں مصر اور دریائے نیل کے بارے میں ایک مفصل مضمون شامل تھا۔ قدیم مصر میں بتوں کی پرستش ہوتی تھی ، ان میں سے کچھ بتوں کی تصویریں اس میں دی گئی تھیں۔ ان تصویروں سے اندازہ ہور ہا تھاکہ قدیم مصر کے لوگوں نے بت تراشی میں غیر معمولی کمال حاصل کیا تھا۔
ایک بت کی تصویر کے نیچے بامعنی طور پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے— فرعون کے زمانہ میں وہ پوجے جاتے تھے۔ آج وہ ثقافتی ورثہ کا ایک حصہ ہیں :
''In pharaonic times they were worshipped, today they are part of a cultural patrimony''.
ان الفاظ کی پوری معنویت اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتی جب تک اس میں یہ اضافہ نہ کیا جائے کہ قدیم زمانہ میں شرک ساری دنیا میں تہذیبی طاقت بن کر چھایا ہوا تھا ۔ توحید کی بنیا د پر ہونے والے اسلامی انقلاب نے اس مشر کا نہ غلبہ کوختم کر دیا ۔ اگر یہ مشرکانہ غلبہ ختم نہ کیا جا تاتو دنیا میں وہ دور کبھی نہیں آسکتا تھا جس کو آج سائنسی ترقی کا دور کہا جاتا ہے ۔ )تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : اسلام دور جدید کا خالق(
فرینکفرٹ ایرپورٹ پر حفاظتی ہدایت (security advice) کے عنوان کے تحت دیواروں پر لکھا ہوا تھا کہ اپنے سامان کو رکھوالی کے بغیر نہ چھوڑیں:
Do not leave your baggage unattended
اس کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہی معاملہ آدمی کو خود اپنے نفس کے ساتھ کرنا ہے ۔ ہرآ دمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کا نگراں بنا رہے ۔ ورنہ اس کا نفس اس کو تباہی کے راستہ پر ڈال دے گا اور پھر کوئی چیز اس کو خدا کی پکڑ سے بچانے والی نہ بن سکے گی۔
12مئی کی شام کو فرینکفرٹ پہنچا۔ یہاں مغرب اور عشا کی نماز پڑھی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرے جیسے عاجز انسان کے ساتھ نصرت کا خصوصی معاملہ فرمایا ۔
*****
جولائی 1990ءمیں روس (سویت یونین)کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ اس سفر پر جانے سے پہلے میں نے چاہا کہ اس مضمون کو دیکھوں، جومولانا امین احسن اصلاحی نے میری طالب علمی کے زمانہ میں علامہ موسیٰ جار اللہ روسی (1878-1949ء) کی بابت لکھا تھا۔ یہ مضمون مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے ماہنامہ الاصلاح میں ’’شذرات‘‘ کے تحت لکھا تھا۔ میں نے مولانا عبد الرحمن ناصراصلاحی کو خط لکھا کہ الاصلاح کے مذکورہ مضمون کی فوٹو کاپی روانہ کر دیں ۔ خط لکھنے کے چند دن بعد پانچ صفحہ کے اس مضمون کی فوٹو کاپی مجھے بذریعہ ڈاک دہلی میں مل گئی۔ واضح ہو کہ دہلی اور سرائے میر( اعظم گڑھ) کے درمیان800 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے ۔ مگر اس میں شکر کا عظیم الشان سرمایہ موجود ہے۔ یہ انسانی ذہن کی کیسی عجیب خصوصیت ہے کہ 50 سال پہلے کا واقعہ ایک سکنڈ میں اس کو یاد آجائے ۔ حالانکہ مجھے یاد نہیں آتا کہ زمانہ طالب علمی کے بعد دوبارہ کبھی اس کا ذکر آیا ہو ۔ پھر ڈاک کا یہ نظام انسان کے لیے کتنی بڑی سہولت ہے ۔ اگر موجودہ وسائل نہ ہوں تو مذکورہ مضمون کو حاصل کرنے کے لیے مجھے سولہ سوکلومیٹر کا سفر طے کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔ اس میں غالباً دوما ہ لگ جاتے۔ پھر فوٹو کاپی کی مشینیں کتنی بڑی نعمت ہیں جن کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ چند لمحے میں کسی چیز کا کسی تبدیلی یا فرق کے بغیر عکس حاصل کر لیا جائے۔
یہ باتیں بظاہر بالکل معمولی ہیں، مگر معمولی چیز کو غیرمعمولی چیز کے روپ میں دیکھنے ہی کا نام شکر ہے۔ اگر آدمی جذبۂ شکر کے ابلنے کے لیے انوکھے معجزہ کا انتظار کرے تو وہ کبھی بھی خدا کا سچا شکر گزا رنہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں ایسے اسباب شکر کسی کے لیے ظاہر ہونے والے ہی نہیں۔
*****
نومبر 1990ء کو جاپان کے راستے امریکا کے لیے میراایک سفر ہوا۔ ٹوکیو سے لاس اینجلز کے لیے جاپان ایرلائنز کی فلائٹ نمبر62 کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ یہ دس گھنٹے کی مسلسل پرواز تھی جو پوری کی پوری بحرالکاہل کے اوپر طے ہوئی۔ کرۂ ارض کا تقریباً 71 فی صد حصہ سمندروں سے گھرا ہوا ہے۔ ان میں سب سے بڑا سمندر بحرالکاہل (Pacific Ocean) ہے۔متصل سمندروں کو چھوڑتے ہوئے صرف بحرالکاہل تمام سمندروں کا45 فیصد حصہ ہے۔ اس کی اوسط گہرائی12925 فٹ ہے۔ ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک اس کا فاصلہ تقریبا ً گیارہ ہزار میل ہے۔
اس عظیم سمندر کے مقابلے میں تمام انسانوں کی مجموعی تعداد ایک چیونٹی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی ۔ مگر یہی انسان اس کے اوپر فاتحانہ پرواز کرتے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتاہے ۔ انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کا یہ کیساعجیب احسان ہے۔ میں نے نیچے سمندر کی لہروں کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے یہ لہریں کہہ ر ہی ہوں کہ اے انسان ! ان احسانات کو سوچ کر تیرے اندرشکر خداوندی کا سیلاب امنڈ پڑ نا چاہیے۔ مگردنیا میں شاید ہی کوئی انسان ہو جس نے سمندر کی ان بیتاب لہروں میں اس کے ربانی پیغام کو سنا ہو۔
*****
2 دسمبر 1990ء کو میں امریکا میں تھا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے خلیج کے مسئلہ کے بارے میں سوال کیا ۔ میں نے کہا کہ اس مسئلہ میں میری و ہی رائے ہے جو عام طور پر علماء کی رائے ہے ۔علماء کی رائے نہایت تفصیل کے ساتھ آ چکی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ تذکیری باتوں پر گفتگو کریں جن کے بارے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔
پھر میں نے کہا کہ ابھی ہم لوگوں نے ایک کھا نا ختم کیا ہے ۔ کھانے کے بعد کے لیے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ: الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيأَطْعَمَنِي،وَسَقَانِيوَاجْعَلْنِيمِنْ الْمُسْلِمِين ( اس اللہ کا شکر اور تعریف ہے جس نے مجھے کھا نا کھلایا اور جس نے مجھے پانی پلایا اور جس نے مجھے مسلمانوں میں سے بنایا )۔
اس دعا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اس کے الفاظ کو یاد کرلے اور کھانے کے بعداسے اپنی زبان سے دہرا دے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعا اپنے مفہوم کے اعتبار سے مطلوب ہے، نہ کہ محض اپنے الفاظ کے اعتبار سے۔ آپ اگر کسی سے کہیں کہ میرافلاں ٹیلی فون نمبر ہے، تم اس نمبر پر مجھے کال کر لینا ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ اس گنتی کو یا دکرکے اسے اپنی زبان سے دہراتا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ٹیلی فون سٹ کے اوپر اس نمبر کو ڈائل کر کے آپ سے ربط قائم کرے۔
یہی دعا کا معاملہ ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جب آپ دعا کے یہ الفاظ پڑھیں تو آپ کا ذہن ان کے معانی کی طرف چلا جائے ۔ آپ سوچیں کہ خد انے کس طرح وہ کھا نا اور پانی بنایا جو میری بھوک اور پیاس کو مٹائے اور میری زندگی کی طاقت بنے ۔ جب آپ اس طرح سوچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ ایک عظیم تخلیق کا معاملہ ہے۔ خدا نے کائناتی انتظام کے تحت نان فوڈ(non-food) کو فوڈ(food) میں تبدیل کیا ، اس نے نان واٹر (non-water) کو واٹر(water) میں تبدیل کیا ، اس کے بعد یہ ممکن ہو ا کہ آپ اس کو کھائیں اور پئیں اور وہ آپ کے جسم میں داخل ہوکر آپ کا گوشت اور خون بنے۔
اسی طرح خدانے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ اپنے نان اسلام کو اسلام میں کنورٹ کریں ، اس کے بعد ہی یہ واقعہ پیش آیا کہ آپ کے اندر ایک اسلامی شخصیت ایمرج کرے ۔ ان عظیم انعامات کا احساس جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو وہ مذکورہ کلمہ کی صورت میں ظا ہر ہوتا ہے ۔
*****
6 دسمبر 1990ء کو میں کیلی فورنیا (امریکا) میں جناب صغیراسلم صاحب کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ مجھے دہلی اپنے آفس میں بات کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔یہ کیلی فورنیا میں صبح کا وقت تھا اور دہلی میں شام کا ۔ میں نے صغیراسلم صاحب سے کہا ۔ انھوں نے اپنے ٹیلیفون پر نمبروں کے بٹن دبائے۔ اس کے فوراً بعد د ہلی میں ہمارے دفتر میں گھنٹی بجنے لگی ۔ میں نے سوچا کہ جس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ کیلی فورنیا کا ایک انسان دہلی کے ایک انسان سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں رابطہ قائم کرلے ، اس دنیا میں کیا یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنے خالق سے رابطہ قائم کر سکے ۔ دل نے کہا کہ یقینی طور پر ممکن ہے ۔ مگر اس کے لیے اسی طرح صحیح تدبیر اختیار کر نی ہو گی جو کیلی فورنیا اور دہلی کے درمیان رابط قائم کرنے کے لیے اختیار کی گئی۔ اس رابطہ کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ ہم مذکورہ نمبروں کا اہتمام نہ کرتے بلکہ دوسرے غیرمتعلق نمبروں پر اپنی انگلیاں مارنے لگتے۔ ایسی حالت میں ہماری کوشش بے فائدہ ہو جاتی ۔ اس کے بجائے ہم نے یہ کیا کہ صحیح ترین نمبر معلوم کر کے عین اسی نمبر کے ذریعہ ربط قائم کرنے کی کوشش کی ۔ ایسا کرتے ہی فوراً ربط قائم ہو گیا۔
اسی طرح خدا سے ربط قائم کرنے کا بھی ایک ’’صحیح نمبر ‘‘ہے اور ایک ’’غلط نمبر‘‘ جوشخص خدا سے ربط قائم کرنے کی سنجیدہ خواہش رکھتا ہو ، اس کو چاہیے کہ پہلے اس کا ’’صحیح نمبر‘‘ معلوم کرے۔ ایسا کرنے کے بعد خد اسے اس کا ربط قائم ہونا اتنا ہی ممکن ہو جائے گا جتنا کیلی فورنیا اور دہلی کے درمیان ربط قائم ہونا۔ یہ صحیح نمبراپنی ذات کو حذف کرنا ہے ۔
*****
امریکا کے سفر(1990ء) میں جناب صفی قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ایک مجلس میں بہت اچھی مثال دی ۔ انھوں نے کہا کہ آج کل مصنوعی سٹلائٹ خلا میں بھیجے جاتے ہیں ۔ یہ سٹلائٹ اوپر جا کر200 میل یا اس سے کم وبیش کی دوری پر زمین کے گرد گھومنے لگتے ہیں ۔ مگر ان کی عمر کی ایک مدت ہے ۔ ایک مدت گزرنے کے بعد وہ زمین کی کشش کے دائرہ میں آکر ز مین کی طرف کھنچنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ نیچے آتے آتے ایک روز زمین پر گر پڑتے ہیں ۔ اسی طرح انسان ایک مقررہ مدت کے لیے اس دنیا میں آتا ہے ۔ اس کے بعد اس کا واپسی کا سفر شروع ہو جا تا ہے ۔ یہاں تک کہ آخر کار وہ دوبارہ خدا کی طرف چلا جاتا ہے۔
6 دسمبر کو ظہر کی نماز کے بعد آخری بار میں یہاں کے پارک میں گیا۔ پارک کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ملی ہوئی سٹرک سے ایک بہت بوڑھا امریکن جوڑا خاص طرح کی کھلی ہوئی چھوٹی گاڑی کو آہستہ چلاتا ہوا گزر رہا ہے ۔ میری نظر ان لوگوں کی طرف گئی تو مردنے ہاتھ اٹھا کر ہائے (ہیلو) کہا۔ میں پارک کے اندر داخل ہو رہا تھا اور وہ سٹرک پر چلتے ہوئے دوسری طرف جا رہے تھے ۔
اس واقعہ میں مجھے خود اپنا وداعی سفر دکھائی دینے لگا۔ میں نے کہا : کل مجھے یہاں سے جانا ہے، اسی طرح ایک اور کل آئے گا جب کہ میں اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ پہلے سفر کی منزل معلوم ہے، مگر دوسرے سفر کی منزل معلوم نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ دوسرے سفر میں میرے اوپر کیا بیتنے والا ہے۔ کچھ دیر تک میں پارک میں بیٹھا، خوبصورت پارک ، سرسبز درختوں سے ڈھکے ہوئے مکانات ، ہوا کے خوش گوار جھونکے ، سٹرک پر پھسلتی ہوئی کاریں ، سورج کی سنہری روشنی میں اڑتے ہوئے ہوائی جہاز ، اس طرح کے مختلف مناظر کے درمیان میں نے سوچا کہ خدا نے کتنی زیادہ نعمتیں انسان کو دے رکھی ہیں۔ لوگ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں ۔ مگر کوئی نہیں جو ان بے پایاں نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ میری زبان سے بے ساختہ نکلا : خدایا ! میں ساری انسانیت کی طرف سے تیرا شکر ادا کرتا ہوں تاکہ ان کے اوپر تیرا غضب نازل نہ ہو جائے ۔
*****
اکتوبر 1991ء میں مجھے روم اور مالٹا کا ایک لمبا سفر کرنا پڑا۔ مالٹا میں میرا قیام ہوٹل ’’ہالی ڈے اِن‘‘ میں تھا۔تاریخی اعتبار سے مالٹا جیسے چھوٹے اور دور دراز مقامات تاریخ کے اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب کہ دنیا میں عام طور پر مذہبی جبر کا دور دورہ تھا۔ لوگ حکومتوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے اس طرح کے مقالات پر پناہ لیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مسیحی بزرگ نے رومی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے مالٹا میں پناہ لی تھی ۔ مالٹا کے بارے میں ایک تعارفی پمفلٹ میں یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ چرچ ا بتداءً 1417ءمیں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد1694ء میں وہ دوبارہ بنایا گیا۔ یہ چرچ سینٹ اگا تھا سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہ رومی شہنشاہ ڈیسیس کی تعذیب سے بھاگ کر مالٹا آئے تھے :
''CHAPEL OF ST. AGATHA: This church was originally built in 1417, and redesigned by Lorenzo Gafa, in 1694. The church is dedicated to St. Agatha who, it is said, found shelter in Malta from the persecution of the Roman Emperor Decius (249 AD)''
مذہبی جبر کے اس دور کو اسلام نے ختم کیا۔ مگرکیسی عجیب بات ہے کہ لوگ عطیہ سے فائدہ اٹھارہے ہیں ، مگر معطی کا اعتراف کرنے والا کوئی نہیں ۔ حتی کہ خودمسلمانوں میں بہت سے لوگ اس خدائی واقعہ کو اپنے قومی فخر کے خانہ میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ حالاں کہ صحیح یہ تھا کہ اس کو وہ شکر خدا وندی کے خانہ میں ڈالیں ۔
*****
ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے برسیلز (بیلجیم) کا میرا ایک سفر ہوا۔ 16ستمبر 1992ءکو فجر کی نماز بر سیلز کی آخری نماز تھی ۔ ناشتہ سے فراغت کے بعداپنے ایک میزبان ڈاکٹر لیونارڈو کے ہمراہ ایرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی ۔ ضروری کارروائی کے بعد اندر داخل ہوئے تو ایرپورٹ پر موجود چرچ کے فادر مل گئے ۔ انھوں نے ہم کو پہچان لیا ۔ کیوںکہ انھوں نے کانفرنس میں ہمیں دیکھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں ایر پورٹ کے احاطہ میں ایک مسجد بھی ہے ۔ یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ انھوں نے ہمارا شوق دیکھ کر ہم کو مسجد تک پہنچا یا۔ ہم نے کچھ وقت اس مسجد میں گزارا۔ یہ ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے۔ لمبائی میں وہ دس قدم ہے اور چوڑائی میں سات قدم۔ میں نے یہاں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرے جیسے کمزور آدمی کو ایسے زمانہ میں پیدا کیا جب کہ مذہبی تشد د دنیا سے ختم ہو گیا ہے۔ حتی کہ غیر مسلم حکومتیں اپنے ہوائی اڈہ کے اندر اپنے مسافروں کی سہولت کے لیے مسجدوں کی تعمیر کر رہی ہیں۔
*****
لندن کے ایک سفر (ستمبر 1992ء)میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہندستان میں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی سازشیں ہورہی ہیں ، اس کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں۔ یہ گفتگو رات کے وقت ہورہی تھی ۔ میں نے کہاکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ دنیا میں اندھیرا چھا رہا ہے، اس کو دور کرنے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں۔ بظاہر اس وقت اندھیرا ہے، مگر دوسرا اس سے بڑا واقعہ یہ ہے کہ پورا کائناتی نظام اس اندھیرے کو ختم کر کے دوبارہ صبح طلوع کرنے کی طرف متحرک ہے۔ پھر آپ اندھیرے کے خلاف احتجاج کیوں کریں ۔ آپ آنے والی صبح کو سوچ کر اللہ کا شکر کیوں نہ کریں۔
میں نے کہا کہ اس دین کے ساتھ اللہ نے محفوظیت (الحجر،15:9) کا معاملہ کیا ہے ۔ اس معاملہ کی نشانیاں آپ ساری تاریخ میں دیکھ سکتے ہیں ۔ تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاریوں نے اسلام اور مسلمانوں کومٹانا چاہا۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ خود تا تاری دین کے خادم بن گئے۔ بیسویں صدی میں اتاترک اور عصمت انونو نے ترکی سے اسلام کو ختم کرنا چاہا ۔ مگر دونسلوں تک حکومت کی دین کو مٹانے کے لیے ساری طاقت لگانے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ عصمت انونو (1884-1973ء) نے انتقال کے وقت کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں یہ عجیب چیز دیکھی کہ ہم نے ترکی میں سیکولرزم کا پودا بویا، مگر جب پھل نکلا تو وہ اسلام تھا۔
یہی معاملہ ہندستان میں ہو رہا ہے۔ لوگوں کے بیان کے مطابق 1947ءسے پہلے ہندؤوں نے انڈیا سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مگر ساری کوششوں کے بعد یہ حال ہوا کہ1947ءمیں غیر منقسم ہندستان میں مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی۔ آج اسی ہندستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً چوگنا ہوچکی ہے۔ میوات میں کچھ جاہل مسلمان تھے جو چوٹیاں رکھتے تھے اور ہندو رسوم مناتے تھے۔ ہندوؤں نے ان کوشدھی کر کے انھیں دوبارہ ہندو بنانے کی تحریک چلائی۔ اس کے جواب میں مولانا الیاس صاحب نے میواتیوں کی دینی اصلاح کی کوشش شروع کی۔ آج یہ حال ہے کہ نہ صرف میواتیوں کی دینی اصلاح ہوئی بلکہ مولانا الیاس صاحب کی اٹھائی ہوئی تحریک ایک عالمی اصلاحی تحریک بن گئی۔ بابری مسجد کا مسئلہ پیدا ہونے کے بعد مسلمانوں میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ اجودھیا کی مسجد میں ہندوؤں کو داخلہ کا موقع اس لیے ملاکہ وہ غیر آباد تھی۔ کیوں کہ ’’ خانۂ خالی را دیو می گیرد ‘‘یعنی گھر خالی ہو تو اس میں جن بسیرا کرلیتے ہیں۔ اس احساس نے دوسری مسجدوں کی آبادی کا ذہن پیدا کیا۔ آج ہندستان کی تین لاکھ سے زیادہ مسجد یں مزید بہت زیادہ آباد اور پر رونق ہوچکی ہیں ۔
پھر جب حالت یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرسازش برعکس طور پر خود اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا باعث ہوتی ہے تو ہم کو لوگوں کی سازش پر پریشان ہونے کی کیا ضرورت۔
*****
ستمبر 1992ء کو ایک سفر سے نئی دہلی کے لیے واپسی کےموقع پر میں دبئی میں ٹرانزٹ پسنجر کی حیثیت سے کچھ دیرکے لیے ٹھہرا تھا۔ دبئی کے ہوائی اڈہ پر ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے۔ وہاں پہنچ کر نماز پڑھی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ مسجد کے باہر عربی میں اماکن الصلاۃ ا ور انگریزی میں (Prayer Room )لکھا ہوا تھا۔ مسجد اللہ کے بندوں کے لیے مامن ہے ۔ اس کے اندر داخل ہو کر ایک خاص طرح کا سکون حاصل ہوتا ہے۔ مسجد نہ صرف عبادت گاہ ہے بلکہ وہ اہل ایمان کے لیے روحانی پناہ گاہ بھی ہے ۔ میں نے سوچا کہ دنیا کے ہر ملک میں اور ہرشہر میں کثرت سے مساجد کی موجودگی مسلمانوں کے لیے ایک غیر معمولی ایڈوانٹج کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وہ یہ کہ وہ پرامن اسلامی تحریک کو مساجد کی بنیاد پر اٹھائیں ، اور پھر دنیا کے ہر گوشہ میں اپنے لیے بنا بنایا مرکز عمل پالیں۔
*****
جمہوریہ مالدیپ بحر ہند میں واقع جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے۔ دسمبر1987ء میں مالدیپ کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ یہ سفر ایک انٹر نیشنل اسلامک کا نفرنس میں شرکت کے لیے تھا جس کا اہتمام حکومت مالدیپ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ 5 دسمبر1987ء کی صبح کو فجر سے پہلے گھر سے روانہ ہونا تھا ۔4 دسمبر کی شام کو مختلف کاموں میں دیر ہوگئی اور میں ساڑھے بارہ بجے سے پہلے بستر پر نہ جاسکا ۔ سوتے وقت دل سے دعا نکلی کہ خدا یا مجھے تین بجےجگا دیجیے۔ تاخیر کی وجہ سے نیند بھی کسی قدر دیر میں آئی، اور میں سو گیا۔ میں بالکل گہری نیند سورہا تھا کہ خلاف معمول اچا نک نیند کھل گئی ۔ دیکھا تو گھڑی کی ایک سوئی تین پر تھی اور دوسری سوئی بار ہ پر۔میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ دل نے کہا کہ اللہ کی مدد ٹھیک اپنے وقت پر آتی ہے ، اگر چہ انسان اپنی عجلت پسندی کی وجہ سے گھبرا اٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی مدد آنے والی نہیں۔
*****
اردو کے ایک مرثیہ گونے قدیم زمانہ میں حضرت حسین اور ان کے خاندان کے لوگوں کے سفر کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین کو مختصر کر کے ان کا راستہ آسان بنا دو :
طنابیں کھینچ کر کم کر زمیں کو کہ ہو وے راہ کم ان مہ جبیں کو
آج اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے لیے ’’زمین کی طنابیں کھینچ کر‘‘سفر کو مختصر بنا دیا ہے، یعنی جدید وسائل کے ذریعہ فاصلوں کو کم کردیا ہے ۔ مثلاًہوائی جہاز کی سواری آج بہت زیادہ عام ہوچکی ہے۔ اس لیے لوگوں کو اس کے غیر معمولی پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوائی جہاز اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ ہوائی جہاز نے آج لمبے سفروں کو ہر آدمی کے لیے ممکن بنا دیا ہے۔ ورنہ قدیم زمانے میں بہت ہی کم افراد لمبے سفر کا حوصلہ کرسکتے تھے۔ مگر قرآن کے مطابق، انسانوں میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو قابل شکر باتوں کو شدت کے ساتھ محسوس کریں اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو جائیں (34:13) ۔
*****
جولائی 2001ء میں میرا ایک سفر سوئٹزرلینڈ کے لیے ہوا۔ ہمارا جہاز 25 جولائی کی صبح کو ٹھیک وقت پر زیورک ، سوئٹزر لینڈ پہنچ گیا۔ جہاز جب ایر پورٹ کے قریب پہنچ کر نیچے اترا تو چاروں طرف سرسبز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک خوبصورت دنیا تھی جو گویا فطرت کے سبزہ زار ماحول میں بنائی گئی تھی۔ اس کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا:
''It is like seeing paradise from a distance''.
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک نہایت حسین اور معیاری دنیا بنائی جہاں انسان ابدی طورپر پر مسرت زندگی گزار سکے۔ یہ جنت ہے ۔پھر اس نے ایک اور دنیا موجودہ زمین کی صورت میں بنائی۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انتہائی انوکھا استثنا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے،یعنی اس دنیا میں جنت کے مشابہ تمام چیزیں رکھ دی گئی ہیں (البقرہ ، 2:25)۔ گویا موجودہ دنیا آخرت کی کا مل جنت کا ایک ناقص تعارف ہے۔ یہ دنیا انسان کو اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ اس کے اندر جنت کی ابتدائی جھلک دیکھے اور پھر اس کا شکر ادا کر کے ابدی جنت کا مستحق بنے ۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ(14:7)۔ یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو (جنت کی صورت میں)زیادہ دوں گا۔