صبر خدا کے لیے
قرآن میں بار بار صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک جگہ پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ:وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ(16:127)۔یعنی، تم صبر کرو اور تمہارا صبر صرف خدا کے لیے ہے۔ تم جو صبر کررہے ہو وہ بظاہر انسان کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمہارا صبر صرف اللہ کے لیے ہے۔
خدا کے لیے صبر کرنے کا مطلب اس دینی اور دعوتی مقصد کے لیے صبر کرنا ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو اس میں ایک طرف داعی ہوتا ہے اور دوسری طرف مدعو۔ دعوت کے نتیجہ میں مدعو کی طرف سے منفی ردّ عمل پیش آتا ہے۔ اس بنا پر داعی اور مدعو کے درمیان طرح طرح کے مسائل ابھر آتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی اگر جوابی رد عمل کا طریقہ اختیار کرے تو داعی اور مدعو کے درمیان تعلقات بگڑ جائیں گے اور دعوتی عمل کو جاری رکھنے کے لیے ضروری معتدل حالت قائم نہیں رہے گی۔
خدا کے لیے صبر کا مطلب یہ ہے کہ یک طرفہ برداشت کے ذریعہ یہ کوشش کی جائے کہ معتدل حالات قائم رہیں۔ تاکہ خدا کی یاد اور خدا کی عبادت کا ماحول برقرار رہے، تاکہ دعوت کا عمل بلا روک ٹوک جاری رہے، تاکہ مدعو کے اندرضد اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہو سکے، تاکہ تعلیم اور تعمیر کا کا م کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
صبر فطرت کا ایک قانون ہے۔ ہر منصوبہ بند تعمیری عمل کے لیے صبر ضروری ہے۔ صبر کوئی منفعل روش نہیں، صبر خدائی تعلیمات کا مرکزی اصول ہے۔ خدا کا ایک سچا بندہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ صبر کی روش کوچھوڑ دے۔ کیوں کہ صبر کی روش سے ہٹنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے تواضع کی صفت چھن جاتی ہے۔ وہ نفرت اور انتقام کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ وہ انسانی مجموعہ کو اپنے اور غیر میں بانٹ دیتا ہے۔ اس کے اندر سے انسانی ہمدردی کا وہ جذبہ نکل جاتا ہے جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔ وہ ماحول ختم ہوجاتا ہے جس میں شکر خدا وندی کے جذبات پرورش پائیں۔