مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) کا مالک تھا۔ وہ قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لیے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ ردِّ عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (persecution complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوگئے جس کو انگریزی میں پیرانوئیا (paranoia)کہاجاتاہے۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیں گے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے ( 7:146)۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔

اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom