عافیت کی زندگی
حاتم اصم (وفات 237ھ)جب امام احمد (وفات 241ھ)کےپاس آئے توامام احمد نے ان سے پوچھا:يَا حَاتِمُ فِيمَ التَّخَلُّصُ مِنْ النَّاسِ؟ قَالَ: يَا أَحْمَدُ فِي ثَلَاثِ خِصَالٍ: أَنْ تُعْطِيَهُمْ مَالَك وَلَا تَأْخُذَ مِنْ مَالِهِمْ شَيْئًا، وَتَقْضِيَ حُقُوقَهُمْ وَلَا تَسْتَقْضِيَ أَحَدًا مِنْهُمْ حَقًّا لَك، وَتَحْتَمِلَ مَكْرُوهَهُمْ وَلَا تُكْرِهَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَلَى شَيْءٍ(تاریخ بغداد، جلد 8، صفحہ237)۔یعنی، امام احمد نے ان سے کہا کہ مجھے بتائیےکہ لوگوں سے محفوظ کیسے رہا جائے۔حاتم اصم نے کہا کہ تین چیزوں کے ذریعہ سے: ان کو اپنا مال دیں، مگر خود ان کا مال نہ لیں۔ لوگوں کے حقوق ادا کریں ، مگر اپنے حقوق ان سے نہ مانگیں۔ لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کریں اور خود ان کو ایذا نہ پہنچائیں۔
ان تینوں باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ یک طرفہ طور پر لوگوں کو یہ احساس دلا دیں کہ وہ آپ سے پوری طرح محفوظ ہیں۔ اس کے بعد آپ بھی ان سے پوری طرح محفوظ ہو جائیں گے۔ لوگوں کو یہ احساس تین تدبیروں کے ذریعہ دلایا جا سکتا ہے۔
لوگوں کے پاس جو کچھ ہے ، اس سے اپنے آپ کو مستغنیٰ بنا لیں۔ مگر آپ کے پاس جو کچھ ہے، اس میں سے آپ لوگوں کو حسبِ توفیق ان کا حصہ پہنچاتے رہیں۔ آپ لوگوں سے لینے والے نہ بنیں ، اس کے بجائے آپ لوگوں کو دینے والے بن جائیں۔
لوگوں کا جو حق آپ کے اوپر ہو اس کی ادائیگی میں آپ کوئی کوتا ہی نہ کریں۔ مگر دوسروں کے اوپر آپ کا جو حق آتا ہو، اس کو دوسروں سے وصول کرنے کی کبھی کوئی مہم نہ چلائیں۔
معاشرتی زندگی میں بار بار ایسا ہوگا کہ دوسروں کی طرف سے آپ کو تکلیف پہنچے گی۔ اس طرح کے مواقع پر آپ یک طرفہ صبر و تحمل کی پالیسی کو اختیار کر لیں ، آپ صرف اتنا ہی نہ کریں کہ دوسروں کو آپ ایذانہ پہنچائیں ،بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کا رویہ یہ بن جائے کہ دوسروں کی ایذاؤں پر آپ صبر کر لیں ، آپ لوگوں سے بدلہ لیے بغیر انہیں معاف کر دیں۔
دنیا میں عافیت کی زندگی حاصل کرنے کا یہی واحد یقینی نسخہ ہے۔ اس کے سوا جو تدبیر اختیار کی جائے گی، وہ امن وعافیت دینے والی نہیں بن سکتی۔