ہلاکت کیا ہے
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إِذَا سَمِعْتَ الرَّجُلَ يَقُولُ هَلكَ النَّاسُ، فَهُوَ أَهْلَكُهُمْ(موطا امام مالک، حدیث نمبر2070)۔یعنی، جب تم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو سب سے زیادہ ہلاکت میں وہی شخص ہے۔
اِس حدیثِ رسول میں ’هَلكَ النَّاسُ‘اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے خود بھی یہ زبان استعمال کی۔ مثلاً حضرت علی بن ابی طالب نے ایک قاضی سےکہا :ہلکتَ وأہلکتَ (السنن الکبرى للبیہقی، اثرنمبر 20857)۔ یعنی،تم خود بھی ہلاک ہوئے اور تم نے دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔
اِس حدیث رسول میں جس روش کی مذمت کی گئی ہے، وہ دراصل تنقید برائے تنقید (criticism for the sake of criticism) ہے، یعنی لوگوں کو برا بتانا، لیکن یہ نہ بتانا کہ ان کے لیے صحیح بات کیاہے۔ دوسروں کے خلاف منفی ریمارک دینا، لیکن مثبت نصیحت کا طریقہ اختیار نہ کرنا۔ بے دلیل تنقید کرنا، لیکن مدلل تجزیہ کے ذریعے یہ نہ بتانا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ نفرت کی زبان میں لوگوں کی مذمت کرنا، لیکن خیر خواہی کے انداز میں ان کو نصیحت نہ کرنا۔
بلا دلیل تنقید کا فائدہ تو کچھ نہیں، مگر اس کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ بادلیل تنقید سے لوگوں کے اندر محاسبہ (introspection) کا مزاج بنتا ہے۔ اِس کے برعکس، بے دلیل تنقید سے لوگوں کے اندر نفرت اور بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ بادلیل تنقید، اصلاح کا ذریعہ ہے۔ اور بے دلیل تنقید صرف فساد کا ذریعہ۔ صالح تنقید وہ ہے جس میں خیر خواہی کا جذبہ پایا جائے۔ جس کا مقصد فریقِ ثانی کی اصلاح ہو۔ اس کے برعکس، غیر صالح تنقید کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کو بے عزت کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا۔ صالح تنقید اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اِس کے برعکس، غیر صالح تنقید کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔