صبر پر بے حساب اجر
قرآن میں صبر کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّمَا یُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ (39:10)۔ یعنی، بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔صبر کی اتنی زیادہ اہمیت اس لیے ہے کہ صبر (patience) آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مثبت اعمال کرسکے، جو غیر معمولی اجر کا باعث بنتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ اسلام میں ساری اہمیت تعمیر شخصیت کی ہے، جس کو قرآن میں تزکیہ (20:76) کہاگیا ہے۔ موجودہ دنیا امتحان (test)کی دنیا ہے۔ یہاں مسلسل طورپر دوسروں کی طرف سے ایسے حالات پیش آتے رہتے ہیں، جو آدمی کو گوارا نہیں ہوتے، جو آدمی کے اندر نفرت، غصہ، اشتعال اور منفی سوچ جیسی کیفیات پیدا کردیتے ہیں۔ اس قسم کی منفی کیفیات آدمی کو مسلسل طورپر ڈسٹریکٹ (distract) کرتی رہتی ہیں۔ وہ آدمی کی توجہ کو صحیح رخ سے ہٹا کر غلط رخ کی طرف کردیتی ہیں۔
یہ ایک تباہ کن صورت حال ہے۔ مگر یہ ناموافق صورتِ حال فطرت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کوئی آدمی اس ناخوش گوار صورت حال کا خاتمہ کرنے پر قادر نہیں۔ ایسی حالت میں اس کے مضر انجام سے اپنے کو بچانے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہر ایسے ناخوش گوار موقعے پر صبر کا طریقہ اختیار کرے۔
صبر کی یہ اہمیت تدبیر کے اعتبار سے ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ وہ آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور رد عمل (reaction) ہر قسم کی برائیوں کی جڑ ہے۔ ہر برائی ابتداء ً کسی ناخوشگوار واقعہ کے خلاف رد عمل سے پیدا ہوتی ہے، اور پھر بڑھ کر وہ بگاڑ (breakdown) کی آخری حد تک پہنچ جاتی ہے۔ صبر آدمی کو رد عمل سے بچاتا ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو رد عمل سے بچالے، وہ گویا تمام برائیوں سے محفوظ ہوگیا۔