ماضی میں جینا
لوگوں سے بات کیجیے تو اکثر لوگ، بلکہ شاید سبھی لوگ کسی نہ کسی کے خلاف کوئی شکایت لے کر منفی احساسات میں مبتلا رہتے ہیں۔ پورے معنوں میں مثبت سوچ والا آدمی شاید کوئی بھی آج کی دنیا میں موجود نہیں۔
اِس قسم کی سوچ آدمی کے اندر منفی شخصیت (negative personality) پیدا کرتی ہے۔ اور منفی شخصیت کسی بھی عورت یامرد کے لیے خود کُشی سے کم نہیں۔ عام خود کشی اگر جسمانی خود کشی (physical suicide) ہے، تو منفی سوچ بلاشبہ نفسیاتی خود کشی (psychological suicide) ہے۔
اِس معاملے میں لوگوں سے پوچھ گچھ(scrutiny) کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شکایت کسی نہ کسی ایسے واقعے پر مبنی ہے جس کا تعلق گزرے ہوئے ماضی سے ہے۔ لوگوں کی یہ ایک تباہ کن عادت ہے کہ اگر اُن کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے، تو وہ دوسروں سے اس کا چرچا کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اس کو اپنی یاد (memory)میں لیے رہتے ہیں۔ یہی عادت کسی عورت یا مرد کے اندر منفی شخصیت کی تشکیل کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ہر عورت اور ہر مرد کو چاہیے کہ جب بھی اس کے ساتھ کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آئے، تو اُسی وقت وہ اس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دے۔ وہ ہرگز دوسروںسے اس کا چرچا نہ کرے، بلکہ وہ کوشش کرکے ناخوش گوار واقعہ کے کسی خوش گوار پہلو کو تلاش کرے۔ اِس طرح وہ ایک منفی تجربے کو، مثبت تجربے میں تبدیل کردے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک مسافر کے پاؤں میںکانٹا چبھ جائے، تو وہ اُسی وقت اس کانٹے کو نکال کر باہرپھینک دیتا ہے۔ وہ اس کو اپنی زندہ یادداشت (living memory) کا جزء نہیں بناتا۔
دانش مند انسان وہ ہے جو تلخ یادوں کو بھلا دے۔ وہ اپنے ذہن کو ماضی کی ناخو ش گوار یادوں کا جنگل نہ بننے دے۔اس دنیا میں کامیاب زندگی کی اِس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔