دعوت اور صبر
اسلامی مشن کا پروگرام بنیادی طورپر دونکات پر مشتمل ہے— دعوت اور صبر۔ دعوت کا مطلب ہے، قرآن کے خدائی پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانا، اور صبر کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ تمام امور میں حالتِ موجودہ پر رضامندی کا طریقہ اختیار کرنا۔ جس کو اسٹیٹس کو ازم کہاجاتا ہے۔
یہ صبر بے حدضروری ہے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا میں خود فطری قانون کے تحت ،ہمیشہ ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں اگر ایسا ہو کہ آدمی ہر ناپسندیدہ صورتِ حال پر لوگوں سے ٹکرانے لگے تو اس کے پاس دعوت کے کام کے لیے وقت ہی نہیں رہے گا۔ دوسری طرف داعی اور مدعو کے درمیان وہ معتدل فضا ختم ہو جائے گی جو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے ضروری ہے۔
دعوت کا کام ہمیشہ قربانی پر ہوتا ہے۔ اس قربانی کا تعلق جان ومال کی قربانی سے زیادہ جذبات کی قربانی پر ہے۔ دوسرے انسانوں کی طرف سے بار بار ایسے ناموافق تجربے ہوتے ہیں جو داعی کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے والے ہیں، جو داعی کو نفرت اور انتقام کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اگر داعی اس منفی نفسیات سے مغلوب ہوجائے تو دعوت کے کام کی مطلوب فضا ہی ختم ہوجائے گی۔
اس لیے ہر داعی کو جذبات کی قربانی دے کر اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھنا پڑتا ہے۔ یہ دعوت کی لازمی شرط ہے۔ اس کے بغیر دعوت کا کام نہیں ہوسکتا۔ اسی کو اسٹیٹس کو ازم کہاجاتا ہے اور شریعت میں اسی کا نام صبر ہے۔ صبر کی اسی قربانی پر دعوت کا کام ہمیشہ انجام پاتا ہے۔ صبر نہیں تو دعوت بھی نہیں۔
صبر دراصل دعوت کی قیمت ہے۔ صبر کی یہ قیمت ادا کرنے کے بعد ہی وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو دعوت کہا جاتا ہے۔ صبر دوسرے لفظوں میں وہی چیز ہے جس کو تجارت کی اصطلاح میں کسٹمرفرینڈلی بہیویر (customer friendly behaviour)کہا جاتا ہے۔ تاجر اپنے کسٹمر کے ساتھ یک طرفہ طورپر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح داعی اپنے مدعو کے معاملے میں یک طرفہ طورپر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی مدعو فرینڈلی سلوک کا نام صبر ہے۔