کنڈیشننگ کا عمل
انسان کی شخصیت کی تعمیر کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے،ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 223)۔ یعنی، ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے، پس وہ اپنا سودا کرتاہے، پھروہ اپنے آپ کو آزاد کرتا ہے یا اپنے آپ کو تباہ کرلیتا ہے۔
اس حدیث میں تمثیل کی زبان میں انسانی زندگی کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، موجودہ دنيا هر ايك كے لیے امتحان كي جگه هے۔ هر روز جب صبح هوتي هے تو وه انسان كے لیے بيك وقت دو مختلف قسم كے امكانات كا دروازه كھولتي هے۔ وه يا تو خداكے منصوبے كے مطابق زندگي گزار كر اپنے آپ كو كاميابي كي طرف لےجائے، يا خدائي منصوبےكي خلاف ورزي كركے اپنے آپ كو تباهي كے گڑھے ميں گرالے۔
ہر آدمی جو اس دنیا میں پیدا ہوتاہے، وہ ایک ماحول کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے صبح و شام اس ماحول کے اندر گزارتا ہے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا رہتا ہے۔ اس کو آج کی زبان میں کنڈیشننگ کا عمل (process of conditioning) کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے خارجی حالات سے اثر قبول کرنا۔اس طرح ہر عورت اور ہرمرد کی شخصیت کی تعمیر ایک خارجی ماحول کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی اصل فطرت پر باقی رہنے کے بجائے اپنے ماحول کی پیداوار (product ) بن جاتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے اپنے بارے میں دو قسم کے اختیار (options) ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کواپنے ماحول کے حوالے کردے۔ اس کے قریبی حالات اس کو جیسا بنائیں ویسا ہی وہ بنتا چلا جائے۔ اس کے قریبی حالات اگر اس کے اندر منفی شخصیت کی تعمیرکر رہے ہوں تو وہ اس سے متاثر ہوتا رہے، یہاں تک کہ وہ ایک منفی ذہن والا انسان بن جائے۔ یہ وہ انسان ہے جس نے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ اس کے برعکس، دوسرا انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو بیدار کرے، وہ اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کرے، وہ ذہنی اعتبار سے اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ وہ چیزوں کا آزادانہ تجزیہ کرسکے، وہ غیر متاثر انداز میں چیزوں کی قدر و قیمت متعین کرنا (evaluation)سیکھ لے۔ ایسا آدمی تاثر پذیری سے بچ جائے گا۔ وہ اپنے اندر ایک آزاد شخصیت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔