صبر پسپائی نہیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:
وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146) ۔ یعنی، اور کتنے نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے نہ وہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی۔ اور نہ وہ دبے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں سبیل اللہ کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے۔ اس کا تعلق مخصوص طور پر حالت قتال سے نہیں ہے۔بلکہ یہ حکم عام ہے۔یعنی دینی زندگی اختیار کرنے کے بعد دنیا میں جو مصائب و شدائد پیدا ہوتے ہیں، اس پر انھوں نے استقامت کا طریقہ اختیار کیا۔
صبر کا لفظی مطلب برداشت کرنا ہے۔ دانش مند انسان کے لیےیہ برداشت برائے برداشت نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک اسٹراٹیجی (strategy) ہوتی ہے۔ یعنی وقتی صورت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے مستقبل کا نقشہ بنانا، وقتی حالات سے اوپر اٹھ کر غیر متاثر ذہن کے ساتھ دوبارہ سوچنا، اور یہ معلوم کرنا کہ پیش آمدہ حالات میں زیادہ موثر عمل کیا ہوسکتا ہے۔ صبر کا مطلب پسپائی نہیں ہے، بلکہ زیادہ بہتر اقدام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک طریق عمل کارگر ثابت نہیں ہوا تو اس کے بعد یہ دریافت کرنا کہ دوسرا زیادہ موثر طریقِ عمل کیا ہوسکتا ہے۔
صبرکی حقیقت یہ ہے کہ آدمی حالات کا شکار (victim)نہ بنے، وہ حالات سے غیر متاثر رہ کر سوچے، وہ رد عمل (reaction) سے اوپر اٹھ کر مثبت ذہن کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ انسان کی زندگی میں ایسی صورتِ حال بار بار پیش آتی ہے۔انفرادی زندگی میں بھی اوراجتماعی زندگی میں بھی۔ اس طرح کی صورتِ حال میں جو شخص مذکورہ معنوں میں صبر کا ثبوت دے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے۔