شخصیت کی تعمیر
خدا، انسان کا خالق ہے۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے انسان جو کچھ ہے، وہ تمام تر خدائی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، وہ انسان کی خود اپنی تعمیر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان پچاس فی صد، خدا کی تخلیق ہے اور پچاس فی صدخود اپنی تعمیر:
Every human being is fifty percent God-made, and fifty percent self-made.
انسان فطری طور پر ہر قسم کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوہ (potential) طورپر ہوتی ہیں۔اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہ ایک عظیم موقع ہے جو ہر عورت اورہر مرد کو ملا ہوا ہے۔ یہ تمام تر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے بالقوہ کو بالفعل بنائے، یا اس کے بغیر ہی ایک ناکام انسان کے طورپر اس دنیا سے چلا جائے۔
بالقوہ کو بالفعل بنانا ایک مسلسل عمل ہے جو تاحیات جاری رہتا ہے۔ اِس عمل کا آغاز سنجیدہ غور وفکر سے ہوتاہے۔ سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے آدمی سچائی کی دریافت تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد آدمی کو ہر دن اپنا محاسبہ (introspection) کرنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرے اور ان کی اصلاح کرکے اپنے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کے عمل کوجاری رکھے۔
شخصیت کی تعمیر (personality building)کا یہ عمل آدمی خود کرتا ہے، لیکن اِس عمل کو درست طورپر جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو مسلسل طورپر خدا کی مدد حاصل رہے۔ اِس مدد کے حصول کا ذریعہ دعا ہے۔ دعا میں جینے والا آدمی ہی اپنی شخصیت کی تعمیر میں کامیاب ہوتا ہے۔ دعا کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا کی مانند ہوتا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے خام لوہے کوترقی دے کر اسٹیل بنائے۔ یہ کام ہر ایک کو کرنا ہے۔ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔