ایک لفظ کا فرق
ایک صاحب جن کی تعلیم ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔ 12 دسمبر 2017ء کوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے 2005ء میں میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ میرے اندر احساسِ کمتری بہت زیادہ ہے۔ اس کا کوئی حل بتائیے ۔ میں نے کہا کہ آپ صرف ایک لفظ بدل دیجیے۔ ابھی تک آپ احساسِ کمتری کا لفظ بولتے ہیں۔ آج سے آپ احساسِ غلطی کا لفظ بولنا شروع کردیجیے۔ اس کے بعد، ان شاء اللہ، آپ کا سارا معاملہ درست ہوجائے گا۔
آج کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات آپ نے ایک ڈائری میں لکھی اور وہ ڈائری مجھ کو دے دی۔ اسی وقت سے میںنے اس نصیحت کو پکڑلیا ہے۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی غلطی کو دریافت کرتا ہوں، اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے سارے معاملات درست ہوگئے۔ گھر کے معاملات بھی، پڑوسیوں کے معاملات بھی، اور مسجد اور مدرسے کے معاملات بھی۔ پہلے میں برابر ٹینشن میں رہتا تھا، اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ کسی سےکوئی جھگڑا نہیں۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میں خود ہی سوچ کر اس کو درست کرلیتا ہوں۔ اب سب لوگ مجھ سے خوش رہتے ہیں۔ جب کہ پہلے ہر شخص کو مجھ سے شکایت ہوتی تھی۔
یہ کرشمہ صرف ایک پُر حکمت بات کا تھا ۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے و ہ غلط تقابل (wrong comparison)کا شکار تھے۔ اب انھوں نے احساس کمتری کے جملے کو بدل کر احساسِ غلطی بنا لیا۔ پہلے وہ دوسروں کے خلاف سوچا کرتے تھے، اب وہ اپنی اصلاح آپ کے انداز میں سوچنے لگے۔ بظاہر یہ ایک لفظ کا فرق تھا، لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ پرحکمت تھا کہ اس نے ان کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ ان کو منفی شخصیت سے نکال کر مثبت شخصیت بنا دیا۔