انسان کی شخصیت
انسان فطرت کا ایک اعلیٰ عطیہ ہے۔انسان کے اندر ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیت فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے اندر جو صلاحیت ہے، وہ پوٹنشل (potential) کے روپ میں ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول (actual) بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان کی اس پیدائشی نوعیت کو سمجھنے کے لیے قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے: أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25) ۔ یعنی، کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی یہ آیت تمثیل کی زبان میں بتارہی ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر کا اصول کیا ہے۔ اس آیت میں شجرۂ طیبہ سے مراد صحت مند پودا (healthy plant) ہے۔ صحت مند پودے کو جب زمین میں نصب کردیا جائے تو وہ فوراً زمین اور فضا سے اپنی غذا لینا شروع کردیتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک پورا درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ ایک انسانی وجود کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، وہ ایک بالقوۃ انسان کی مانند ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنے ماحول سے ہر قسم کی غذا لینا شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے ایک پورا انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر وہ تمام عملی اور اخلاقی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، جو اس کو اس زمین پر ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے درکار ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ زمین پر موجود تمام امکانات کو اپنے لیے استعمال کرے، اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔ وہ یہ ہےکہ عملی زندگی میں ہر موقعے پر وہ مطلوب رسپانس (required response) دے، جس کے لیے اس کے خالق نے اس کو موجودہ دنیا میں بھیجا ہے۔