صبر اور اعراض
مکہ کے زمانۂ قیام میں صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم اسلام کے دشمنوں کے خلاف اقدام کریں ۔ آپ نے فرمایا کہ صبر کرو۔ غزوۂ احزاب میں آپ نے خندق کھود کر اپنے اور دشمنوں کے درمیان آڑ قائم کر دی، تاکہ دونوں فریقوں میں جنگ نہ ہونے پائے ۔مکہ کے سفر میں بعض مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اورکہا تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے ہو ۔
اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ عمل کسی اندھا دھند کارروائی کا نام نہیں۔ عمل کا تعلق تمام تر حالات سے ہے ۔ حالات کے مطابق کبھی ایک چیز مفید ہوتی ہے اور کبھی وہی چیز غیر مفید بن جاتی ہے۔ اس دنیا میں کبھی ضروری ہوتا ہے کہ آدمی بولے اور کبھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ چپ ہو جائے۔ کبھی یہ مطلوب ہوتا ہے کہ آدمی مقابلہ کرے اور کبھی یہ مطلوب ہو جاتا ہے کہ آدمی مقابلہ کے میدان سے اپنے آپ کو ہٹا دے ۔
موجودہ حالات مسلمانوں کے لیے حد درجہ نازک حالات ہیں ۔ یہ مسلمانوں کے لیے جہاد کا وقت نہیں، بلکہ صبر کا وقت ہے۔ آج انہیں مقابلہ نہیں کرنا ہے، بلکہ اعراض کرنا ہے۔ اس صبر اور اعراض کا مطلب بزدلی نہیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وقفہ ٔتعمیر حاصل کیا جائے ۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا کیس ظلم اور تعصب کا کیس نہیں ۔ وہ ایسے لوگوں کا کیس ہے جو زندگی کی دوڑ میں دوسرے لوگوں سے پچھڑ گئے ہوں۔ مسلمان آج جو کچھ بھگت رہے ہیں، وہ خود اپنے پچھڑے پن کی قیمت ہے ۔ اب ہمیں ایک وقفۂ تعمیر درکار ہے، تاکہ ہم اپنے پچھڑے پن کی تلافی کر سکیں ۔ اس وقفۂ تعمیر کو حاصل کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ صبر کا رویہ اختیار کیا جائے۔ دوسروں کی طرف سے پیش آنے والی ہر شکایت کو یک طرفہ طور پر برداشت کیا جائے۔ مواقع کو استعمال کرنے کی خاطر مسائل کو نظر انداز کیا جائے۔
یہی زندگی کا راستہ ہے۔ اس کے سوا جو راستے ہیں، وہ مسلمانوں کو تباہی کے سواکسی اور منزل پر نہیں پہنچا سکتے ۔