غصہ کا نقصان
اگر تاریخ کے تمام واقعات کو اکھٹا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ جو کام بگڑا وہ کس لیے بگڑا، اور جو کام بنا وہ کس لیے بنا۔ اس کا جواب یقینی طور پر یہ ملے گا کہ جو کام بگڑے ان سب کے پیچھے غصہ اور نفرت کا عنصر موجود تھا۔ اس کے مقابلہ میں جو کام بنے ان سب کے پیچھے اعتدال پسندی اور عفو ودرگزر کا عنصر پایا جاتا تھا۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس کے اندر منفی نفسیات اُبھر آتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے فطری ذہن کے تحت سوچ نہیں پاتا۔ وہ غیر فطری انداز میں سوچتا ہے اور غیر فطری فیصلہ کرتا ہے۔ اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ فطرت کے راستہ سے ہٹ کر جو کام کیا جائے اس کا ناکام ہونا یقینی ہے۔
اس کے برعکس، جب ایسا ہو کہ آدمی کو غصہ آئے تو وہ اپنے آپ کو سنبھال لے۔ وہ اپنی عقل کی صلاحیت کو معتدل انداز میں استعمال کرے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ فطرت کے دائرہ میں رہتی ہے۔ وہ اپنے عمل کا جو منصوبہ بناتا ہے وہ فطرت کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔ اس بنا پر فطرت کا پورا نظام اس کی موافقت پر آجاتا ہے۔ اور جس آدمی کو فطرت کے نظام کی موافقت حاصل ہوجائے اس کی کامیابی اُتنی ہی یقینی ہے جتنا کہ رات کے بعد روشن صبح کا آنا۔
غصہ ایک آگ ہے۔ صبر و تحمل اس آگ کو بجھادینے والا ہے۔ غصہ اگر روکا نہ جائے تو وہ نفرت اور تشدد پیدا کرتا ہے اور نفرت اور تشدد ایک ایسی برائی ہے جس سے زیادہ بڑی برائی شاید اور کوئی نہیں۔ صبر و تحمل کے ذریعہ اعلیٰ انسانی شخصیت بنتی ہے۔ اور بے صبری اور عدم برداشت انسان کو اخلاقی پستی میں گرادینے والی ہے۔
غصہ منفی ذہن پیدا کرتا ہے اور غصہ دلانے کے باوجود غصہ نہ ہونا مثبت ذہن کی تشکیل کرتاہے۔ مثبت سوچ اعلیٰ انسانیت کی پہچان ہے، اور منفی سوچ پست انسانیت کی پہچان۔