محرومی ایک نعمت
مئی 2000ء میں، میں نے بہار کا سفر کیا۔ اس سفر میں مجھے بتیا (بہار) کا یتیم خانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔یہ یتیم خانہ 1928ء سے قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بچہ یا بچی کا یتیم ہونا کوئی برائی نہیں۔ یہ ایک نعمت ہے جو فطرت کی طرف سے کسی کو دی جاتی ہے۔ اگر یتیم ہونا نعمت نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ پیغمبر ِ اسلام کے لیے یتیمی کا انتخاب نہ فرماتے۔یتیم ہونا کسی بچہ یا بچی کے لیے قدرت کی طرف سے ایک خوشخبری ہے۔ اس بات کی خوشخبری کہ تم کو زندگی کے سفر کے لیے وہ کورس عطا کیا گیا ہے جو اس انسان کو عطا ہوا جس کے بارےمیں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم حضرات بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ بشری کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔
یتیم بچہ یا بچی کو پیداہونے کے بعد دنیا میں اپنے فطری امکان کو بروئے کار لانے کے لیے اور کیا چیز ملنی چاہیے اس کااشارہ اس قرآنی آیت میں ملتا ہے:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى (93:6)۔ یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اپنے آغاز حیات میں اپنی زندگی کی تعمیرکے لیے ایک مأویٰ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ یتیم خانہ اور اسی طرح تمام یتیم خانے اسی آیت کی عملی تفسیر ہیں۔وہ یتیموں کو مأویٰ فراہم کرتےہیں۔ اس طرح کے کام کو میں اپنی زبان میں منصوبۂ خداوندی سمجھتا ہوں۔
ایک صاحب نے اپنا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں بچپن میں یتیم ہوگیا تھا۔ میرے رشتہ داروں نے مجھے یتیم خانہ میں داخل کردیا۔ میرے ساتھ دو یتیم بچے اور تھے۔ ہم تینوں نے یتیم بچوں کی حیثیت سے یتیم خانہ میں پروش پائی۔ اس وقت بظاہر ہمارا کوئی مستقبل نہ تھا۔ مگرآج ہم تینوں اللہ کے فضل سے کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ آپ کے اسی یتیم ہونے کا نتیجہ ہے۔ یتیمی کی حالت بہترین حالت ہے۔ یتیمی آدمی کے اندر خودشناسی پیدا کرتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر خود کفیل بننے کا جذبہ ابھارتی ہے۔ یتیم آدمی سمجھتا ہے کہ میرا کوئی سہارانہیں، اس لیے مجھ کو خود ہی سارا عمل کرنا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں سے زیادہ محنت کرنے لگتا ہے۔ یتیمی کے حالات آدمی کو ہیرو بنادیتےہیں۔