صبر و برداشت
حضرت ابوسعید سعد بن مالک بن سنان الخدری کی ایک روایت ہے جس کو امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے اپنی’’صحیح‘‘میں نقل کیا ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو اللہ کی طرف سے صبر سے زیادہ بہتر اور زیادہ بڑا عطیہ نہیں دیا گیا: وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1469؛صحیح مسلم، حدیث نمبر1053)۔
صبر تمام کامیابیوں کی کنجی ہے۔ خواہ اس کا تعلق دنیا کی کامیابی سے ہو یا آخرت کی کامیابی سے۔ پیغمبر اسلام کی یہ تعلیم اعلیٰ ترین فطری صداقت تھی ۔ چنانچہ وہ ساری دنیا میں مختلف شکلوں میں دہرائی گئی ۔ شیخ سعدی شیرازی(1213-1292ء)نے اس کو فارسی زبان میں اس طرح بیان کیا کہ صبر کڑوا ہے، مگر اس کا پھل میٹھا ہے :
صبر تلخ است ولیکن بر شیریں دارد
اس کے بعد زندگی کا یہ قیمتی سبق عالمی ادب میں پہنچا اور ہر ملک میں اس کو کسی نہ کسی صورت سے نقل کیا گیا۔ مثلاً فرانسیسی مفکر روسو(1712-1778ء)نے یہی بات اس طرح کہی کہ برداشت کڑوی چیز ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے:
Patience is bitter, but its fruit is sweet.
صبر کا کڑوا پن چند منٹ کے لیے ہوتا ہے، مگر بے صبری کے نتیجہ میں جو کڑوا پن آتا ہے، وہ برسوں تک بھی ختم نہیں ہوتا ۔ صبر کا جھٹکا ذہن کے اندر صرف نفسیاتی طور پر سہنا پڑتا ہے، مگر بے صبری وہ چیز ہے جس کا انجام جانوں کی ہلاکت ہے۔ جائدادوں کو برباد کرتی ہے۔ وہ آدمی کو آگ اور خون کے دریا میں پہنچا دیتی ہے ۔
صبر ایک اصول ہے۔ جب کہ بے صبری صرف ایک منفی رد عمل ہے۔ صبر کرنے والا اپنے آپ کو با اصول انسان ثابت کرتا ہے۔ اس کو اندرونی طور پر اطمینان کی یہ لذت ملتی ہے کہ وہ کٹھن گھڑیوں میں بھی اصول پرقائم رہا۔ اس کے بر عکس، بے صبر انسان کے حصہ میں یہ بدنصیبی آتی ہے کہ وہ وقتی طور پر بھڑک کر ایک جذباتی کارروائی کرے، اور پھر ساری عمر پچھتاتا رہے کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا ۔