شکر، نہ کہ شکایت

5 ستمبر(2003ء) کو جمعہ کا دن تھا۔ میں نے نظام الدین کی كلاں (کالی) مسجد میں نماز ادا کی۔ امام صاحب نے خطبہ سے پہلے اپنی تقریر میں بتایا کہ 1947ء میں یہ مسجد کچھ ہندوؤں کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے دوبارہ قبضہ کرکے اس کو آباد کرنا چاہا تو پولیس کیس بن گیا اور عدالتی کارروائی کی نوبت آگئی۔ عدالت کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا 15 اگست 1947ء سے پہلے یہ عمارت ایک مسجد تھی اور وہ مسجد کے طورپر استعمال ہوتی تھی۔ ہندو جج نے تین آدمیوں کی گواہی پر مسجد کے حق میں اپنا فیصلہ دیا۔یہ تینوں دہلی کے تین ہندو تھے۔ ان میں سے ایک بر ہمن تھا، دوسرا بنیا اور تیسرا ہریجن۔

كلاں (کالی) مسجد تقریباً 800 سال پہلے تغلق دور میں بنائی گئی تھی۔ میں 1983ء سے اس مسجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں۔ پہلے یہ مسجد تقریباً کھنڈر کی حالت میں تھی۔ اب یہاں مسجد کی شاندار عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک علامت ہے جو بتاتی ہے کہ اس ملک میں ملت مسلمہ کا مستقبل دن بدن بہتر حالت کی طرف جارہا ہے۔

اسی طرح کا واقعہ ہے۔ اپریل 1996 کو میرٹھ اور اس کے اطراف کے لیے میرا سفر ہوا۔ 12 اپریل کو  جمعہ کا دن تھا۔ سردھنہ کی جامع مسجد میں میں نے اپنے مقامی ساتھیوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی ۔ کافی بڑی مسجد ہے ،اندر سے باہر تک نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔ میں نے سوچاکہ موجودہ مسلمانوں سے جو سب سے بڑی چیز اٹھ گئی ہے وہ شکرِ خداوندی کا جذبہ ہے ۔ چنانچہ ایک مسجد کے ساتھ کسی وجہ سے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے تو ہر زبان اور ہر قلم اس کے پرجوش تذکرہ میں مصروف ہو جاتا ہے۔ مگر اس ملک میں لاکھوں مسجد یں شاندار طور پر آباد ہیں اور اس کے تذکرہ میں کوئی رطب اللسان نہیں۔

مجھے یاد آتا ہے کہ 40 سال پہلے میں یوپی میں اپنے آبائی گاؤں، بڈھریا، ضلع اعظم گڑھ، میں رہتا تھا۔ میرے گھر کے قریب ایک مسجد تھی۔ اس میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں ہی مؤذن ہوتا تھا اور میں ہی امام اور مقتدی۔ خاص طورپر عشاء کی نماز مجھے اس طرح پڑھنا ہوتا تھا کہ میں لالٹین لے کر مسجد جاتا،جو گاؤں کے باہر کھیتوں کے کنارے واقع تھی۔ رات کے سنسان ماحول میں عشاء کی نماز پڑھنا بڑا عجیب تجربہ تھا۔ اس وقت وہاں میرے ساتھ کوئی اور نمازی نہیں ہوتا تھا۔ میں خود ہی اذان دیتا اور خود ہی تکبیر کہہ کر جماعت کے طورپر نماز ادا کرتا اور پھر لالٹین لے کر واپس اپنے گھر آجاتا۔

مگر اب40 سال کے بعد مسجد سمیت یہ پوری جگہ نہایت با رونق ہوگئی ہے۔ اب وہاں مسجد سے متصل سڑک گزررہی ہے۔ بجلی اور ٹیلی فون آچکا ہے۔ مسجد کے بالکل سامنے ایک معیاری اسکول قائم ہوگیا ہے۔ اب یہاں رات دن چہل پہل رہتی ہے۔

اس قسم کے واقعات ہر جگہ پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں نہایت امید افزا پیغام چھپا ہوا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں تمام مسلمان، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں، شکایت کی بولی بولتے ہیں۔ مجھے اپنے تجربہ میں پوری مسلم دنیا میں کوئی شخص نہیں ملا جو شکایت سے خالی ہو، اورحقیقی طورپرشکر کے جذبہ سے سرشار ہوکر حمد کلچر یا مثبت سوچ میں جیتاہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom