جاہلوں سے اعراض
اسلام کا ایک اہم اصول ہے جس کو قرآن میں جاہلوں سے اعراض کہا گیا ہے (7:199)۔ سیرت ابن ہشام میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے:
قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ بِمَكَّةَ، عِشْرُونَ رَجُلًا أَوْ قَرِيبٌ مِنْ ذَلِكَ مِنْ النَّصَارَى حِينَ بَلَغَهُمْ خَبَرُهُ مِنْ الْحَبَشَةِ. فَوَجَدُوهُ فِي الْمَسْجِدِ، فَجَلَسُوا إلَيْهِ وَكَلَّمُوهُ وَسَأَلُوهُ، وَرِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ فِي أَنْدِيَتِهِمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ مَسْأَلَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلم عَمَّا أَرَادُوا دَعَاهُمْ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَتَلَا عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ. فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ فَاضَتْ أَعَيْنُهُمْ مِنْ الدَّمْعِ، ثُمَّ اسْتَجَابُوا لِلهِ، وَآمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ، وَعَرَفُوا مِنْهُ مَا كَانَ يُوصَفُ لَهُمْ فِي كِتَابِهِمْ مِنْ أَمْرِهِ، فَلَمَّا قَامُوا عَنْهُ اعْتَرَضَهُمْ أَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالُوا لَهُمْ: خَيَّبَكُمْ اللهُ مِنْ رَكْبٍ! بَعَثَكُمْ مَن وَرَاءَكُمْ مِنْ أَهْلِ دِينِكُمْ تَرْتَادُونَ لَهُمْ لِتَأْتُوهُمْ بِخَبَرِ الرَّجُلِ، فَلَمْ تَطْمَئِنَّ مجالسُكم عندَه، حَتَّى فَارَقْتُمْ دينَكم وَصَدَّقْتُمُوهُ بِمَا قَالَ، مَا نَعْلَمُ ركْبًا أَحْمَقَ مِنْكُمْ. أَوْ كَمَا قَالُوا. فَقَالُوا لَهُمْ: سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، لَا نُجَاهِلُكُمْ، لَنَا مَا نَحْنُ عَلَيْهِ، وَلَكُمْ مَا أنتم عليه، لم نألُ أنفسَنا خيرًا(سیرۃ ابن ہشام،جلد2، صفحہ29)۔
اس واقعے میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کے پاس کچھ نصراني لوگ حبش سے آئے تھے۔ انھوں نے آپ کی باتیں سنیں، پھر انھوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ جب وہ رسول اللہ کی صحبت سے نکلے تو ان کی ملاقات ابوجہل سے ہوگئی۔ ابوجہل نے ان سے کہا کہ تم لوگ بہت احمق ہو، تم لوگوں نے اس شخص کی بات سنی ، اور پھر اس کے مومن بن گئے۔ تم کچھ لوگوں کے نمائندہ بن کر آئے تھے، تم کو اس شخص کے بارے میں تحقیق کرنا چاہیے تھا اور جا کر اپنے لوگوں کو بتانا چاہیے تھا۔ انھوں نےجواب میں اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ قابل غور ہے کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے ان لوگوں کو اعراض کا فلسفہ نہیں بتایا تھا۔ لیکن انھوں نے خود سے اعراض کے طریقے پر عمل کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان آدمی کے اندر ذہنی بیداری لاتا ہے، آدمی کے اندر وہ چیز پیدا کرتا ہے جس کو تخلیقی فکر (intellectual thinking) کہا جاتا ہے۔