خدا جلدی نہیں چاہتا
ایک شخص اپنے عیسائی دوست سے ملنے گیا۔ جب وہ دوست کے یہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے سامنے بے تابی کے ساتھ ٹہل رہے ہیں۔’’آج میں آپ کو پریشان دیکھ رہا ہوں،آخر کیا بات ہے‘‘۔ اس نے پوچھا۔ عیسائی دوست اچانک سنجیدہ ہوگئے۔ انھوں نےکہا:
I am in hurry, but God isn't.
میں جلدی چاہتاہوں،مگر خدا جلدی نہیں چاہتا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے صحن میں ایک مرجھائے ہوئے آم کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:میں نے اس کو بڑی امیدوں کے ساتھ پچھلے ہفتہ لگایا تھا ۔ مگر اب وہ سوکھ کر ختم ہو چکا ہے۔
’’یہ درخت تو کافی بڑا ہے، پھر ایک ہفتہ پہلے کیسے آپ نے اس کو لگایا تھا‘‘۔ آدمی نے پوچھا۔’’یہی تو اصل بات ہے‘‘۔ عیسائی دوست نے کہا۔’’میں نے چاہا کہ میں اچانک ایک بڑا درخت اپنے یہاں کھڑا کر دوں۔ مگر خدا کی اس دنیا میں ایسا ہو نا ممکن نہیں۔ میں نے آم کا چھوٹا پودا لگانے کے بجائے یہ چاہا کہ پانچ سال کا درخت لاکر اپنے صحن میں لگاؤں اور اس طرح پانچ سال کا سفر ایک دن میں طے کرلوں ۔ میں نے درخت تو کہیں نہ کہیں سے لاکر لگالیا، مگر وہ اگلے ہی دن سوکھ گیا۔ اور اب اس کی جو صورت ہے وہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو‘‘۔
اس کے بعد عیسائی دوست نے کہا: اس دنیا میں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے خد ا کا ایک قانون ہے۔ ہم اس قانون کی پیروی کر کے ہی اس چیز کو اپنے لیے وجود میں لاسکتے ہیں۔ اگر هم قدرت کے اصول کی پیروی نہ کریں اور اپنی خواہشوں پر چلنے لگیں تو ہمارے حصہ میں’’سوکھا درخت‘‘آئے گا، نہ کہ’’ہرا بھرا باغ‘‘۔
لکڑی کی ایک کشتی کی تاریخ اگر چھوٹے پودے سے شروع کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر کشتی والا انتظار کرتا ہے کہ قدرت ایک درخت اگائے ۔ زمین و آسمان کے تمام انتظامات اس کو پروان چڑھانے کے لیے وقف ہوں۔ یہ کام سو برس تک ہوتا رہے۔ یہاں تک کہ جب مسلسل عمل کے نتیجہ میں ننھا پودا پختہ درخت کی عمر کو پہنچ جاتا ہے، اس وقت کشتی والا اس کو کاٹتا ہے۔ اس کے تنے بنا تا ہے اور پھر ان تختوں کو لوہے کی کیلوں سے جوڑ کر وہ کشتی تیار کر تا ہے جو انسانی قا فلوں کو پانی کے اوپر سفر کرنے کے قابل بنائے۔
ذاتی معاملات میں ہر آدمی اس بات کو جانتا ہے۔ مگر جب ملت کا معاملہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ فی الفور ایک عظیم الشان کشتی دریا میں اتار دے، خواہ اس کے پاس کشتی کے نام سے کاغذ کی ناؤ ہی کیوں نہ ہو۔
یا درکھئے، یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ اس کو خدا نے بنایا ہے۔ اور وہ اسی خدا کےقانون کے تحت چل رہی ہے۔ ہم اس سے موافقت کر کے اپنی زندگی کی تعمیر کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم اس کے ساتھ موافقت نہ کریں تو ہمیں اس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔
جس طرح درخت تدریج کے ساتھ اگتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی کے معاملات بھی تدریج کے ساتھ درست ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے قدرت کے اس تدریجی قانون کو جانیے اور اس کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اپنا سفرشروع کیجیے۔ اس کے سوا اس دنیا میں کا میابی کا کوئی اور راستہ نہیں ۔ بقیہ تمام راستےکھڈ کی طرف جاتے ہیں، نہ کہ کسی منزل کی طرف۔
قرآن میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے۔ صبر کا مطلب بے عملی نہیں، صبر در اصل منصوبہ بند عمل کا دوسرا نام ہے۔ بے صبر آدمی فوری رد عمل کے تحت بے سوچے سمجھے کارروائی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، صبر والا آدمی اپنے جذبات کو روک کر پورے معاملہ پر غور کرتا ہے۔ وہ اپنی طاقت اور دوسرے کی طاقت کا اندازہ کرتا ہے۔ وہ حالات کا جائزہ لیتا ہے۔ وہ قانون قدرت کو سمجھتا ہے جس کےدائرہ میں اس کو اپنا عمل کرنا ہے۔
اسی طرح سوچ بچار کے بعد عمل کا نقشہ بنانے کے لیے اپنے جذبات کو تھامنا پڑتا ہے، اس لیے اس کو شریعت میں صبر کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اسی کو منصوبہ بند عمل کہتے ہیں۔ اس دنیا میں صابر انہ عمل ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، اور غیر صابرانہ عمل ہمیشہ ناکام ۔