صبر کا فلسفہ
پیغمبرِاسلام کی تعلیمات میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً ایک سو دس آیتیں ہیں جن میں صبر کے الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں تک کے صبر ہی پر کامیابی کا مدار رکھا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو صبر کرو تا کہ تم فلاح پائو (3:200)۔ اِسی طرح فرمایا کہ امامت یا لیڈر شپ میں کامیابی کا راز صبر ہے۔ (السجدہ،32:24)
اِسی حقیقت کو پیغمبر ِاسلام نے اپنی ایک لمبی حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا:وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ( مسند احمد، حدیث نمبر2803)۔یعنی، جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ صبر نہیں تو کامیابی نہیں۔ کامیابی کا درخت ہمیشہ صبر کی زمین پر اُگتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام پیسفسٹ (pacifist) یا پیس فل ایکٹیوسٹ (peaceful activist) اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اِس کا مشترک سبب یہ ہے کہ انہوں نے امن کو دریافت کیا مگر وہ صبر کو دریافت نہ کرسکے۔ حالاں کہ صابرانہ روش کے بغیر پُرامن تحریک کو چلانا ممکن نہیں۔
عام طور پر یہ ہوتاہے کہ لوگ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد پیس فُل ایکٹوزم کے اصول پر اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ کسی گروہ کے مقابلے میں پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر تحریک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اس کے خلاف منفی جذبات نہ ہوں، اس کے مقابلے میں آپ مکمل طور پر مثبت نفسیات کے حامل ہوں۔ یہی واحد بنیاد ہے جس کے اوپر پیس فل ایکٹوزم کی سرگرمیاں جاری ہو سکتی ہیں۔ مَدِّ مقابل گروہ کے لیے آپ کے دل میں اگر مثبت جذبات نہ ہوں تو آپ کبھی اپنے پُرامن مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر ایک تحریک اُٹھاتا ہے۔ لیکن فریقِ ثانی کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں کا احساس فریقِ اوّل کے خلاف اس کے دل میں نفرت ڈال دیتا ہے۔ یہ نفرت دھیرے دھیرے تشدّد کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور اگر تشدد کے ذریعے مطلوب کامیابی نہ مل رہی ہو تو فریقِ اوّل کے دل میں فریقِ ثانی کے خلاف نفرت کا طوفان اس کو اِس حد تک لے جاتا ہے کہ اس کے خلاف ہر ممکن تخریبی کارروائی شروع کردے، یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لیے اُس قسم کی بھیانک کارروائی کرنے لگے جس کو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔
پیس فل ایکٹوزم کے سلسلے میں یہ بات غالباً پوری تاریخ میں صرف پیغمبرِاسلام کی زندگی میں ملتی ہے۔ دوسرے مصلحین کی طرح ان کو بھی فریقِ ثانی کی طرف سے سخت قسم کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ نے کبھی اُن کے خلاف نفرت کی زبان استعمال نہیں کی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آپ ہمیشہ نفرت کے احساس سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی زندگی میںاِس طرح کی مثالیںکثرت سے موجود ہیں۔مثال کے طور پر مکّہ میں پیغمبرِاسلام کے ساتھیوں کا ایک خاندان تھا، جس کو آلِ یاسر کہا جاتا تھا۔ یہ ایک کمزور خاندان تھا۔ چنانچہ آپ کے طاقت ور مخالفین نے اُنہیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور کہا کہ پیغمبرکا ساتھ چھوڑ دو۔ پیغمبرِاسلام نے اِس منظر کو دیکھا تو آپ نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف کوئی نفرت کا کلمہ نہیں کہابلکہ آپ نے ان سے صرف یہ فرمایا:صَبْرًا يَا آلَ يَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْجَنَّةُ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر5646 )۔ یعنی، اے آلِ یاسر صبر کرو، کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
جنّت کو صبر کا انعام بتا کر آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا کہ وہ کسی بھی زیادتی پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ کسی بھی حال میں فریقِ ثانی کے خلاف اپنے دل میں منفی جذبات کی پرورش نہ کریں۔
یہ پیغمبر ِاسلام کی پالیسی کا نہایت اہم پہلو تھا جس کو آپ نے خدا کی رہنمائی کے مطابق اختیار کیا۔ یعنی مخالفین کی ہر زیادتی پَر صبر کرنا۔ قرآن میںاِس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاًقرآن میں پیغمبرکی زبان میں فرمایا:وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا (14:12)۔ یعنی، ہم تمہاری ایذائوں پر صرف صبر ہی کریں گے۔ یہ صبر کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی ظالمانہ کارروائی کے باوجود مثبت سوچ پر قائم رہنا، اپنے آپ کو اِس سے بچانا کہ اپنے ذہن میں فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے۔کیوں کے فریقِ اوّل کے دل میں اگر فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے تو فریقِ اوّل کبھی فریقِ ثانی کے درمیان پُرامن طریقِ کار کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اِس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہو جائے۔ پُرامن طریقِ کار (peaceful activism) معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا اصول در اصل اِسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔
پیغمبرِاسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کے ساتھ مخاطب گروہ کی طرف سے مسلسل زیادتیاں کی گئیں، لیکن آپ ہمیشہ سختی کے ساتھ صبر کے اصول پر قائم رہے۔ اور اپنے ساتھیوں کو اِسی کی تلقین کی۔ آپ کی مجلسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کے ظلم کا چرچا کیا جائے۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مخالفین کے ظلم کے حوالے سے ان کے خلاف بددعائیں کریں۔ اِس کے برعکس، آپ ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے خلاف اچھی دعا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے مخالفوں کو کبھی کافر یا دشمن نہیں کہا، بلکہ ہمیشہ ان کے بارے میں انسان کا لفظ بولتے رہے۔ اِس معاملے کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک بار آپ کے مخالفوں نے پتھر مار کر آپ کو زخمی کردیا، اُس وقت آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: اللهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (شعب الایمان للبہیقی،حدیث نمبر1375)۔یعنی، خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔
یک طرفہ صبر اور خیر خواہی کا طریقہ جو آپ نے عرب میں اختیار فرمایا، وہ اِسی لیے تھا کہ فریقِ ثانی کے بارے میں آپ ، یا آپ کے ساتھیوں کے دل میں شکایت اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ جو ذہن شکایت اور نفرت لیے ہوئے ہو، وہ اصلاح کا کام درست طور پر نہیں کر سکتا۔