اسٹیٹس کو اِزم
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَ تَسْتَعْمِلُنِي كَمَا اسْتَعْمَلْتَ فُلاَنًا؟ قَالَ: سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثْرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الحَوْضِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3792)۔ یعنی، اسید بن حُضَیر روایت کرتے ہیں کہ (مدینہ میں )انصار کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: آپ نے مجھے عامل نہیںبنایا، جیسا کہ فلاں کو عامل بنایا۔ آپ نے کہا: تم میرے بعد ترجیح دیکھو گے، تو تم لوگ صبر کرو، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر ملاقات کرو۔
صبر کا لفظ یہاں جامع معنی میں ہے۔ یعنی اسٹیٹس کو (status quo) کو مان لینا۔ جو ہے اس کو مان لینا، اور اس کا سبب نہ ڈھونڈنا۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اختلاف کے وقت اگر سبب پوچھا جائے تو وہ صرف اختلاف کو بڑھائے گا، وہ اختلاف کو ختم کرنے والا نہیں۔ ایسے حالات میں صبر کا مطلب ہے سبب کو نہ ڈھونڈا جائے۔
ترجیح کا مطلب ہے ایک کے مقابلے میں دوسرے کو فیور (favour)دینا ۔ بظاہر یہ ایک مسئلہ ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے صبر کرنے کی تلقین کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے مسائل اتنے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی حل نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ اگر آدمی ان سے ٹکرائے یا ان کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرے تو عملا ایسا کبھی ہوگا نہیں۔ ایسی حالت میں قابلِ عمل بات یہ ہے کہ آدمی کے لیے جو ممکن ہے، وہ اس پر راضی ہوجائے۔وہ اسٹیٹس کو (status quo) کو مان کر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے۔
انسان کے لیے ٹکراؤ کرنے سے زیادہ مفید بات یہ ہے کہ وہ اسٹیٹس کو کو مان کر ممکن پر راضی ہوجائے۔ تاکہ اس کو اپنی منصوبہ بندی کا موقع مل سکے۔کبھی اقدام نہ کرنا بھی عمل کی صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایسی روش آدمی کو مزید نقصان سے بچاتی ہے۔