شکر میں جینا سیکھیے
کسی انسان کو شکر کا اعلیٰ درجہ کیسے حاصل ہوتا ہے۔مئی 2012 میں میں نے ترکی کا سفر کیا۔ وہاں مجھ کو جو پانی پینے کے لیے دیا گیا، وہ پانی اتنا زیادہ فریش (fresh) تھا، اور پینے میں اتنا زیادہ میرے اعلیٰ ذوق کےعین مطابق تھا ۔ میں نے پانی کا گلاس میز پر رکھ دیا، اور سوچنے لگا کہ خالق نے یہ کیسے جانا کہ میرے بندے کو ایسا پانی چاہیے، اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے بندے کی عین طلب کے مطابق، اس کو پانی فراہم کریں۔
کوئی چیز پُرلذت اِسی لیے ہے کہ ہمارے اندر لذت کا احساس موجود ہے۔ اگر لذت کا احساس نہ ہو، تو کوئی بھی چیز لذت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔سائنسی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کی زبان میں تقریباً دس ہزار ذائقہ خانے (taste buds) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر جتنے ذائقہ خانے ہیں، ان کے عین مطابق خدا نے ہمارے آس پاس کی دنیا میں فل فلمینٹ (fulfillment ) کا سامان بھی مہیا کردیا ہے۔ یہ خدا کی قدرت کا انتہائی انوکھا ظاہرہ ہے۔ کیوں کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی ذائقے کو اس وقت جانتا ہے، جب کہ وہ خود اس کا تجربہ کرے۔ ذاتی تجربے کے بغیر کسی ذائقے کو جاننا انسان کے لیے ممکن نہیں۔
ایک سنجیدہ انسان جب دنیا میں کسی ذائقے کا تجربہ کرتا ہےتو یہ احساس اس کو شکر کے اتھاہ جذبے سےسرشار (overwhelm) کردیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس منعم کا اعتراف کرے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس وہ الفاظ نہیں، جن کے ذریعے وہ اس عظیم نعمت کا اعتراف کرسکے۔ یہ اس کے لیے ایک ناقابلِ تصور تجربہ ہوتاہے۔ اسی تجربے کا نام شکر ہے۔
یہ تجربہ اتنا زیادہ اعلی ہوتاہےکہ منعم کےلیےزبان سےشکر کی ادائیگی کےہر الفاظ اس کو کمتر لگنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتا ہےکہ اس کی پوری شخصیت ایک زبان بن جاتی، اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتا۔ اس کا پورا وجود شکر کے احساس میں ڈھل جاتا ، اوروہ زبان سے شکر کے الفاظ بولنے والا نہیں، بلکہ سراپا شکر میں جینے والا انسان بن جاتا۔