مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا
تجربہ بتاتا ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیان کسی مسئلے پر نزاع پیدا ہوجائے تو آگے جانے کا راستہ ہمیشہ بند ہوجاتا ہے۔ البتہ پیچھے لوٹنے کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ایسے موقع پر آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، صرف اپنے نقصان میں اضافہ کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر آدمی کے لیے صرف ایک ہی چوائس باقی رہتا ہے، اور وہ یو ٹرن (U-Turn) کا چوائس ہے، یعنی پیچھے کی طرف لوٹ جانا۔
ایسے موقع پر پیچھے کی طرف لوٹنے کا مطلب پسپائی نہیں، بلکہ یہ تدبیر کا ایک معاملہ ہے۔ یہ پیچھے ہٹ کر دوبارہ آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہے۔ عقل مند آدمی ہمیشہ ایسے موقع پر یوٹرن کا چوائس لیتا ہے۔ مثال کے طورپر 1799ءمیں سلطان ٹیپو اور انگریزوں کے درمیان نزاع پیدا ہوئی۔ سلطان ٹیپو نے یوٹرن کا چوائس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری سلطنت تباہ ہوگئی۔ اِس کے برعکس، حیدرآباد کی مسلم ریاست نے اِسی طرح کی صورتِ حال میں، انگریزوں کے مقابلے میں یوٹرن کا چوائس لے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سو سال تک کامیابی کے ساتھ باقی رہی۔
عقل مند انسان وہ ہے جو نزاع کی صورتِ حال کو تجربہ کے خانے میں ڈالے۔ وہ نتیجہ (result) کی بنیاد پر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اپنے جذبات کو اپنا رہ نما نہ بنائے، بلکہ عملی حالات کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے ۔ وہ پیچھے کی طرف مارچ کرنے کو بھی اتنا ہی اہم سمجھے، جتنا کہ اِس سے پہلے وہ آگے کی طرف مارچ کو اہم سمجھے ہوئے تھا۔
ایسا کرنے والا آج کے دن کو کھو کر، کل کے دن کو پالیتا ہے اور جو ایسا نہ کرے، وہ آج کے دن کو بھی کھوئے گا اور کل کے دن کو بھی۔ زندگی میںاکثر ایساہوتا ہے کہ پیش قدمی کا راستہ پچھلے مقام پر ہوتا ہے، مگر آدمی اُس کو اگلے مقام پر ڈھونڈنے لگتا ہے۔ حالاں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں— مقامِ نزاع سے پیچھے ہٹنا، دانش مندی بھی ہے اور بہادری بھی۔ اس کے برعکس، مقامِ نزاع پر ٹکراؤ شروع کردینا، نہ دانش مندی ہے اور نہ بہادری۔