مسئلہ کا حل
1947ء کے بعد کے دور میں ہندستان کے مسلمانوں کے ذہن پر سب سے زیادہ جو مسئلہ چھایا رہا ہے ، وہ فرقہ وارانہ فساد کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کو مستقل طور پر عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رکھتا ہے۔ مگر مذکورہ واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ اس مسئلہ کا حل مسلمانوں کے اپنے اختیار میں ہے۔ مسلمان سادہ طور پر صرف یہ کریں کہ وہ کچھ نہ کریں، اور اس کے بعد یقینی طور پر وہ فساد کی مصیبت سے نجات پا جائیں گے۔
عمر بن عبد العزیز (وفات 101 ھ)کا قول ہے کہ صبر مومن کے لیے بچاؤ کا ذریعہ ہے:الصَّبْرَ مِعْوَلُ الْمُؤْمِن (الزہد لاحمد بن حنبل،صفحہ238)۔ مذکورہ واقعہ، اور اس طرح کے دوسرے واقعات ، اس قول رسول کی عملی تصدیق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صبر واعراض کی صورت میں اہل ایمان کو ایک ایسی ڈھال دے دی ہے جو بے خطا اپنا عمل کرتی ہے۔ جب بھی آپ صبر کی تدبیر اختیار کریں، وہ آپ کے لیے یقینی بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گا۔
انسان عین اپنی پیدائشی ساخت کے مطابق، اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ کسی کے خلاف زیادتی کرنے کے لیے جواز (justification) چاہتا ہے۔ جب آپ کسی کی اشتعال انگیزی پرمشتعل ہوں تو گویا آپ اس کو یہ جواز دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے خلاف زیادتی کرے۔ لیکن جب آپ اشتعال انگیزی کے با وجودمشتعل نہ ہوں تو گویا آپ نے اس سے زیادتی کرنے کا جواز چھین لیا۔
یہ دوسرارویہ مومن کے حق میں ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب آپ یہ دوسرا رویہ اختیار کریں تو اس کے بعد آپ اپنے حریف کی فطرت کو اپنا وکیل بنا لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ حریف کے اندر اپنا ایک حامی کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد آدمی خود اپنی اندرونی کیفیت کے اعتبار سے مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف زیادتی کرنے سے باز رہے۔ اور جو آدمی خود اپنے خلاف شکست کھا جائے، وہ کوئی ظالمانہ اقدام کرنے کے لیے اسی طرح نا اہل ہو جاتا ہے، جس طرح ایک غبارہ ہوا نکلنے کے بعد اڑنے کے لیے ۔