جنت صبر کے اُس پار ہے
صالح سماج بنانے کا سارا دارو مدار اس چھوٹی سی بات پر ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح رہے کہ دونوں اپنے آپ کو قابو میں رکھے ہوئے ہوں۔
جس چیز کو اسلامی نظام کہا جاتا ہے، وہ کسی قسم کے سیاسی اکھیڑ پچھاڑ سے وجود میں نہیں آتا۔ اور نہ گولی اور پھانسی کی منطق سے اس کو بر پا کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اس قسم کی کارروائیوں سے اسلامی نظام قائم کرنے کا اعلان کرتے ہیں، وہ یقینی طور پر یاتو غیر سنجیدہ ہیں یا مجنون ہیں ۔
اسلامی نظام یا اسلامی سماج اس وقت وجود میں آتا ہے، جب کسی انسانی مجموعہ کی قابل لحاظ تعداد میں یہ مزاج پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر زندگی گزارنے لگے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شکایتوں اور تلخیوں سے اوپر اٹھ کر جیناجانتے ہوں ۔ جو اپنے خلاف مزاج باتوں کو نظر انداز کر دینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ جو اپنی غلطی کو فوراً محسوس کر لیں اور اس کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود ذمہ داری قبول کرلیں۔ جو غلط فہمی کے مواقع پر خوش فہمی سے کام لینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ جوکسی انسان کو اس کے’’آج‘‘کے بجائے اس کے’’کل‘‘کے لحاظ سے دیکھ سکیں۔
یہ سب کچھ ٹھنڈے طریقہ سے نہیں ہوتا۔ اس کے لیے آدمی کو برداشت کی تلخیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ الفاظ رکھتے ہوئے آدمی نہ بولے ۔ وہ ہر وار کو اپنے اوپر سہے ۔ وہ اپنے سینہ کو دبے ہوئے جذبات کا قبرستان بنادے۔ مختصر یہ کہ اپنے تمام حقوق کو وہ آخرت کے خانہ میں ڈال دے اور اپنی تمام ذمہ داریوں کو دنیا کے خانہ میں۔
حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جہنم کو لذتوں سے ڈھانک دیا گیا ہے اور جنت کو ناخوش گواریوں سے ڈھانک دیا گیا ہے:حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ، وَحُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6487)۔جو آدمی اپنے جی کی راہ پر بے روک ٹوک چلے وہ سیدھا جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص جنت میں اپنی جگہ لینا چاہے اس کو اپنی خواہشات پر روک لگانا ہو گا۔ اپنے جی میں اٹھنے والے محرکات کو دبانا ہو گا۔ ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنا ہو گا ۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہو گا، خواہ ان کا پورا کرنا اس کے لیے کتنا ہی تلخ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت صبر کے اُس پار ہے، اگر چہ لوگ اپنی نادانی سے اس کو بے صبری کے اُس پار سمجھ لیتے ہیں۔