ناشکری نہیں
صحابی رسول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے اوپر اللہ کی نعمت کا اندازہ کرنا چاہے تووہ اس کو دیکھے جواس سے کمتر ہو، وہ اس کو نہ دیکھے جو اس سے برتر ہو(عَنْ أَبَي هُرَيْرَةَ يَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَعْلَمَ قَدْرَ نِعْمَةِ اللهِ عَلَيْهِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ تَحْتَهُ، وَلَا يَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ) الزهد والرقائق لابن المبارك، حدیث نمبر 1433۔
خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، دنیا کی چیزوں کی تقسیم میں یکسانیت نہیں۔ یہاں کسی کو کم ملا ہے اور کسی کو زیادہ۔ کسی کو ایک چیز دی گئی ہے اور کسی کو دوسری چیز۔ اس صورت حال نے دنیوی معاملات میں ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان فرق کر دیا ہے ۔ اب اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرے جو بظاہر اس کو اپنے سے کم نظر آتا ہے تو اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرنے لگے جو بظاہر اس کو اپنے سے زیادہ دکھائی دیتا ہے تو اس کے اندر ناشکری کا احساس ابھرے گا ۔ اس نفسیاتی خرابی سے بچنے کا آسان حل یہ بتایا گیا ہے کہ ہر آدمی اس کو دیکھے جو اس کے نیچے ہے ، وہ اس کو نہ دیکھے جو اس کے اوپر ہے ۔
شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ میرے پاؤں میں جوتے نہیں تھے۔ میں نے کچھ لوگوں کو جوتا پہنے ہوئے دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ دیکھو ، خدا نے ان کو جوتا دیا اور مجھے بغیر جوتے کے رکھا۔ وہ اسی خیال میں تھے کہ ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر انھوں نے اللہ کا شکرادا کیا کہ اس نے انھیں اس سے بہتر بنایا اور ان کو دو تندرست پاؤں عطا کیے— اللہ تعالیٰ کو اپنے ہر بندہ سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس کا شکر گزار بنے۔ مگر موجودہ دنیا میں شکر گزار وہی شخص رہ سکتاہے جو اس اعتبار سے اپنا نگراں بن گیا ہو— ملے ہوئے پرشکر کا جذبہ آدمی کے اندر حوصلہ پیدا کرتا ہے ۔ نہ ملے ہوئےپر شکایت کا ذہن آدمی کو جھنجلاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کر دیتا ہے ۔